اسلام آباد:(سچ خبریں) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے عدلیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیف جسٹس اپنے نیچے آزاد پینل بنائیں اور توڑ پھوڑ کی تحقیقات کروائیں کہ سرکاری عمارتیں جلانے کے پیچھے کون ہے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے نیب حراست سے رہائی کے بعد پہلے ویڈیو خطاب میں ملک میں ہونے والی توڑ پھوڑ کے حوالے سے کہا کہ مجھے انہوں نے بند کیا ہوا تھا لہٰذا مجھے کچھ پتا نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’سپریم کورٹ میں ججوں نے مجھے پوچھا کہ یہاں بڑا انتشار ہوا ہے اور توڑ پھوڑ ہوا ہے تو ان کو کہا ہم نے کبھی ایسی چیزیں نہیں کیں، ہم نے جب مجھے گولیاں لگی تھی تب کیوں نہیں کیا میں نے افسر کا نام لیا تھا انہوں نے تب حملہ کیوں نہیں کیا‘۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ’میں چاہتا ہوں کہ اس پر آزادانہ تحقیقات ہوں، جو بھی سرکاری عمارتیں جلائی گئی ہیں اس کی تحقیقات ہوں کہ اس کے پیچھے کون تھا، جو نہتے نوجوانوں کو سیدھی گولیاں ماری گئیں اور کتنے سیکڑوں لوگ ہسپتالوں میں پڑے ہوئے ہیں‘۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ ’میں سب پر انکوائری چاہتا ہوں لیکن ان سے نہیں چاہتا، میں چاہتا ہوں آپ اپنے نیچے کوئی آزاد پینل بنائیں اور تفتیش کریں کہ کون چاہتا تھا انتشار ہو اور اس کا فائدہ کون اٹھا رہا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’تحریک انصاف کی لیڈرشپ کو جیل میں ڈال دیا ہے، اب تک ساڑھے 3 ہزار کارکن جیل میں ڈال دیا ہے، انہوں نے صرف اور صرف موقعے کا فائدہ اٹھایا ہے‘۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ’معزز ججوں اور اسلام آباد ہا ئی کورٹ نے مجھے ضمانت دے دی تو پھر بھی باہر پولیس انتظار کر رہی تھی اور ایم پی او کے تحت گرفتار کرنا تھا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’آج ہماری جمہوریت ایک چھوٹے سے دھاگے سے لٹک رہی ہے اور اس کو بچانے والی ہماری عدلیہ ہے اور اس عدلیہ پر یہ مافیا واردات کر رہا ہے، اپنی قوم کو کہنا چاہتا ہوں کہ اپنی عدلیہ اور آئین کے ساتھ جڑ کر کھڑے رہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’عدلیہ نے ان کو روک کر رکھا ہے اور جس کی وجہ سے میں آج یہاں بیٹھا ہوں، اس کے اوپر اب پوری واردات ہے‘۔
عمران خان نے کہا کہ ’نواز شریف نے جب دو تہائی اکثریت لے لی تو اس کے راستے میں اس نے دیکھا کہ عدلیہ ہے اور ایک ایمان دار چیف جسٹس ہے جو اس کے لیے گوارا نہیں کیا اور سپریم کورٹ کے اوپر حملہ کیا، ڈنڈوں سے چیف جسٹس کو بھگایا اور پھر پیسے چلائے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جب آزاد عدلیہ جاتی ہے تو اس ملک میں آپ کی آزادی چلی جاتی ہے کیونکہ آزاد عدلیہ بنیادی حقوق کی حفاظت کرتی ہے‘۔
عمران خان نے کہا کہ ’اس وقت ساری قوم کو خاص کر عدلیہ کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے اور میں خاص طور پر ان کا شکر گزار ہوں، جس طرح انہوں نے قانون کے مطابق میرے اوپر بنائے گئے 145 مقدمات پر مجھے جیل سے بچایا، ہم ایک جگہ امید لے کر جاتے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’جو عوام نکلے ہیں، میں بات کر رہا ہوں جو پرامن لوگ نکلے ہیں کیونکہ میرےساتھ میرے چاہنے والے، ووٹر اور میرے کارکن ہمیشہ 27 سال ہم پرامن رہے ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے گولیاں لگتی ہیں، مجھے پتا تھا پہلے سے منصوبہ بنا ہوا تھا اور کئی دفعہ بتا چکا ہوں اس میں کون کون ملوث تھا، سارے فن کار اور جو اداکار اوپر سے لے کر نیچے تک تھے، مجھے سب کے نام پتا ہیں، ایک کا نام میں لیتا ہوں اس سے بھی اوپر کا نام بھی مجھے پتا ہے جس نے گرین لائٹ دی، کون اوپر دو لوگ تھے، جنہوں نے اس آدمی کو گرین لائٹ دی تھی، پھر ان کے ساتھ سویلین ملے ہوئے تھے‘۔
عمران خان نے کہا کہ ’مجھے جب گولی لگی تھی تو تب توڑ پھوڑ کیوں نہیں ہوئی، اس وقت یہ جلاؤ گھیراؤ کیوں نہیں ہوا، کچھ نہیں ہوا کیونکہ یہ میرا فلسفہ نہیں ہے، اگر پارٹی کو ایک دفعہ خون لگ جاتا ہے، جس طرح ہم کراچی میں پارٹی بنانے لگے تھے تو انہوں نےکہا کہ یہاں پارٹی بنانی ہے تو آپ کو دہشت گرد ونگ بنانا پڑے گا کیونکہ ایم کیو ایم کے پاس دہشت گرد ونگ ہے اور سب نے مسلح لوگوں کو رکھا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ آج سے 25 سال پرانی بات ہے اور میں نے تب ان کو سمجھایا تھا کہ جس وقت آپ اپنی پارٹی میں مسلح لوگوں کو رکھتے ہیں اس وقت پارٹی کی ساری فطرت بدل جاتی ہے‘۔
عمران خان نے کہا کہ ’8 مارچ کو بھی یہ تشدد اور انتشار چاہتے تھے کیونکہ انتخابات سے بھاگ رہے ہیں، جو لوگ انتخابات چاہتے ہیں وہ انتشار نہیں چاہتے، جو لوگوں کو خوف آیا ہوا ہے، جن لوگوں کو خوف آیا ہوا ہے انتخابات میں ان کی تباہی ہوجانی ہے اور ان کا نام و نشان ختم ہوجانا ہے وہ انتخابات نہیں ہونے دے رہے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ملک میں سارے باہر نکل جاؤ اور حملہ کرو، یہ جو ہوا ہے مجھے کل سے خبریں ملنا شروع ہوئیں کیونکہ میں نظر بند تھا، مجھے تو پتا نہیں تھا کہ ہو کیا رہا ہے، مجھے جب یہ اٹھا کر لے گئے، اس کے بعد پتا نہیں کیا ہوا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں حقائق لے رہا تھا کیونکہ یہ تو ہم ہیں ہی نہیں، آہستہ آہستہ چیزیں سامنے آ رہی ہیں‘۔
گرفتاری کے حوالے سے بات کرتےہوئے عمران خان نے اس وقت کی ویڈیو بھی چلائی اور کہا کہ ’جب میں اسلام آباد جا رہا تھا تو میں کہا تھا وارنٹ دیں میں گرفتاری کے لیے تیار ہوں، جو انہوں نے وہاں کیا، فوج نے، رینجرز فوج کا حصہ ہیں، ساری دنیا میں سامنے یہ ویڈیو چلی ہے، اس طرح حملہ کیا جیسے پاکستان کا سب سے بڑا دہشت گرد اندر بیٹھا ہوا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’رینجرز کا کیا کام تھا، یہ تو پولیس کو آنا چاہیے تھا، فوج کا یہ کام تھا کرنے کے لیے اور اس کے بعد دروازے توڑ کر لوگوں کو زخمی کیا اور میرے سر پر بھی مارا اور اس طرح لے کر گئے ساری دنیا نے دیکھا کہ پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی کا سربراہ اور دنیا جس کو 50 سال سے جانتی ہے‘۔
کیس کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’جب میں وزیراعظم بنا تو میں نے فیصلہ کیا اس ملک کے اندر سیرت النبی عام کرنی ہے، القادر یونیورسٹی بنانے کا مقصد یہ تھا کہ ملک کے اندر نئی قیادت پیدا ہو، پھر صوفی ازم تھا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس کا فیصلہ دسمبر 2018 میں ہوا، ایک اسپانسر آیا اور کہا میں بنانے کے لیے تیار ہوں، یہ فیصلہ نومبر ہوا اور 15 مئی 2019 کو بطور وزیراعظم اس کا افتتاح کر رہا ہوں، این سی اے کا کیس جو کابینہ میں آیا وہ 7 مہینے بعد دسمبر میں آتا ہے، حالانکہ پیسہ مختص ہوجاتا ہے اور 7 ماہ بعد این سی اے کا کیس آتا ہے‘۔
عمران خان نے کہا کہ ’این سی اے کا کیس بھی سادہ ہے، ہمارے پاس چوائس رکھی گئی کہ ایک کیس 170 ارب ڈالر پاکستان آرہا ہے، جس کے لیے ملک ریاض اور این سی اے میں معاہدہ ہوا جو خفیہ ہے اور اگر اس کو خفیہ مانتے ہیں تو پیسہ پاکستان آجاتا ہے، اگر نہیں مانتے ہیں تو وہاں عدالت میں کیس کرنا پڑے گا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں بتایا گیا کہ بیرون ملک قانونی کارروئی میں ہم 10 کروڑ ڈالر ضائع کر چکے ہیں اور کیس جائے گا تو کئی سال چلے گا لہٰذا ہم نے فیصلہ کیا سپریم کورٹ میں 17 کروڑ ڈالر آرہا ہے یا حکومت پاکستان کے پاس آرہا ہے لیکن آتو پاکستان میں ہے، اس کے اوپر میرے خلاف کیس اور کہتے ہیں آپ نے القادر یونیورسٹی سے فائدہ اٹھایا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’القادر یونیورسٹی ٹرسٹ ہے، اس کے آڈٹڈ اکاؤنٹ ہیں، نیب یہ فائدہ نہیں بتا رہی ہے کیونکہ آپ نے القادر بنانا تھا اور ملک ریاض کو دیا، یہ ساری کابینہ کا فیصلہ تھا لیکن آپ نے اس لیے کیا ہے کیونکہ آپ نے القادر یونیورسٹی بنانی تھی، جس میں مجھے کوئی فائدہ نہیں ہے‘۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ ’یہ سارا ڈراما اس کے اوپر ہوا کہ عمران خان پر کرپشن کیس ہوا اور اس لیے کیس ہوا اور دہشت گرد کی طرح پکڑ کر لے گئے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’نیب کا چیئرمین یہ جو جنرل ہے اگر اس نے حکم دیا ہے کیا اسی نے ہوگا اور اس کے ہینڈلرز نے پیچھے سے کہا ہوگا کیونکہ نیب کا پہلا جو چیئرمین تھا آفتاب سلطان جنہوں نے غلط کام کرنے سے انکار کرکے استعفیٰ دیا، اس کو سلام پیش کرتا ہوں کیونکہ مجھے نہیں پتا تھا کہ وہ اتنا بااصول آدمی ہے‘۔
نیب کے موجودہ چیئرمین پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’اس بے ضمیر آدمی کو شرم نہیں آئی ہے ایک ٹرسٹ کے اوپر ٹرسٹی ہونے پر وارنٹ نکال رہا ہے، ایک تو یہ جاہل ہوگا کیونکہ کوئی اور بہتر مقدمہ مل نہیں رہا تھا‘۔