اسلام آباد(سچ خبریں)پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمان اپوزیشن کے اتحاد کو برقرار رکھنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں اس ضمن میں انہوں نے اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں کے سربراہ آسف زرداری اور نواز شریف سے رابطہ کیا ہے جبکہ نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ ہم پیپلز پارٹی کے بغیر بھی آگے بڑھیں گے۔ مذکورہ رابطہ پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی جانب سے دو روز قبل اسمبلیوں سے استعگے دینے کی تجویز سے انکار کے بعد حکومت مخالف لانگ مارچ ملتوی کرنے کے اعلان کے بعد سامنے آیا۔
تینوں بڑی اپوزیشن جماعتوں میں موجود ذرائع نے ڈان کو تصدیق کی کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے دونوں جماعتوں کے رہنماؤں سے استعفوں کے معاملے اور لانگ مارچ کی تجویز پر تبادلہ خیال کیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آصف زرداری جنہوں نے منگل کو اسلام آباد میں ہونے والے پی ڈی ایم جماعتوں کے سربراہ اجلاس میں اسمبلیوں سے استعفے دینے کے خیال کی زبردستی مخالفت کی تھی، مولانا فضل الرحمٰن کو کہا کہ پی پی پی نے 4 اپریل کو پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر راولپنڈی میں جلسے کے بعد پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی (سی ای سی) کے اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا ہے، جہاں اسمبلیوں سے استعفے دینے کی تجویز کا دوبارہ جائزہ لیا جائے گا۔
تاہم پیپلزپارٹی میں موجود ذرائع کے مطابق آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن نے ایک مرتبہ پھر ایک دوسرے کو اکٹھے استعفوں کے معاملے پر راضی کرنے کی کوشش کی، تاہم آصف زرداری نے اپنے مؤقف پر زور دیا کہ وہ اس طرح اسمبلیوں سے واپس نہیں آئیں گے کیونکہ اس طرح کی صورتحال صرف ’اسٹیبلشمنٹ‘ اور وزیرِاعظم عمران خان کے ہاتھوں کو مضبوط کرے گی۔
آصف زرداری نے لانگ مارچ سے استعفوں کو منسلک کرنے کے دیگر پی ڈی ایم جماعتوں کے فیصلے پر بھی تحفظات کا اظہار کیا۔
اسی دوران سابق صدر نے مولانا فضل الرحمٰن کی توجہ گزشتہ برس ستمبر میں کل جماعتی کانفرنس کے متفقہ ’پلان آف ایکشن‘ پر مبذول کرائی، جو واضح طور پر کہتا ہے کہ اس مقصد کے لیے استعفے بالکل آخری آپشن ہوں گے اور ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔
پیپلزپارٹی کے ذرائع کا کہنا تھا کہ آصف زرداری نے مولانا فضل الرحمٰن کو کہا کہ مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتوں نے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کی تجویز دی تھی اور وہ سمجھ رہی تھی کہ اس طرح کرنے سے وہ سینیٹ انتخابات اور پارلیمان کے ایوان بالا میں حکومت کو اکثریت لینے سے روک سکیں۔تاہم انہوں نے کہا کہ سینیٹ انتخابات لڑنے کے بعد استعفوں کا معاملہ پہلے ہی بے مطلب ہوچکا ہے۔
دوران گفتگو مولانا نے آصف زرداری کو کہا کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں کسی حتمی فیصلے سے قبل پیپلزپارٹی کی سینیٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کے حتمی جواب کا انتظار کرے گی۔
بعد ازاں مولانا فضل الرحمٰن نے نواز شریف سے گفتگو کی، جو ایک سال سے زائد عرصے سے لندن میں خودساختہ جلاوطنی میں رہ رہے ہیں۔فضل الرحمٰن نے انہیں آصف زرداری کے ساتھ ہونے والی گفتگو سے آگاہ کیا۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ دونوں رہنماؤں نے پیپلزپارٹی کی جانب سے اسمبلیوں سے مستعفی نہ ہونے کے اپنے سابقہ فیصلے پر قائم رہنے کی صورت میں امکانات پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
مذکورہ ذرائع نے بتایا کہ دونوں رہنماؤں کا یہ خیال تھا کہ پی ڈی ایم کو حکومت کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھنی چاہیے اور یہاں تک کہ اگر پیپلزپارٹی اتحاد سے باضابطہ راستے جدا کرنے کا فیصلہ کرلے تو اسے اپنے پلان کے ساتھ آگے جانا چاہیے۔
دونوں رہنماؤں نے مستقبل کی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کے لیے پیپلزپارٹی کے سی ای سی اجلاس کے بعد پی ڈی ایم کا ایک اور سربراہ اجلاس بلانے پر اتفاق کیا۔
واضح رہے کہ اس 10 جماعتیں اپوزیشن اتحاد میں دراڑیں منگل کو اس وقت واضح ہوئی تھیں جب اس کی قیادت نے استعفوں کے معاملے پر اختلافات کی وجہ سے 26 فروری کا حکومت مخالف لانگ مارچ ملتوی کرنے کا اعلان کیا تھا۔
افسردہ نظر آنے والے مولانا فضل الرحمٰن یہ اعلان کرنے کے بعد کہ پیپلزپارٹی نے اکھٹے استعفوں کے معاملے پر دوبارہ مشاورت کے لیے وقت مانگا ہے اور جب تک پیپلزپارٹی اپنی سی ای سی اجلاس کے فیصلے کے بعد واپس آگاہ نہیں کرتی لانگ مارچ ’ملتوی‘ رہے گا، صحافیوں کے سوال لیے بغیر پریس بریفنگ اچانک چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
جانے سے قبل انہوں نے یہ بتایا تھا کہ لانگ مارچ کے دوران استعفوں کے حق میں 9 جماعتیں ہیں جبکہ صرف پیپلزپارٹی کو ’ان خیالات پر کچھ تحفظات‘ تھے، جس پر غور کے لیے انہوں نے وقت مانگا ہے۔
ادھر پی ڈی ایم اجلاس میں شامل ذرائع کے بتایا تھا کہ آصف زرداری نے استعفے جمع کرانے کو نواز شریف کی ملک واپسی سے جوڑ دیا تھا، پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین نے اپنی تقریب میں نواز شریف پر سیاسی حملے کیے تھے اور اپنی خود کی قربانیوں کا بتایا تھا، ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ انہوں نے 14 سال جیل کاٹی۔
اس اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے واضح انداز میں اپنے والد کا دفاع کیا تھا اور کہا تھا کہ ان کے والد اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کے لیے وطن واپس نہیں آئیں گے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن پی ڈی ایم اجلاس کی ان کارروائیوں پر ناخوش تھے جس میں ماضی کی حریف پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) ایک مرتبہ پھر ایک دوسرے پر ذاتی حملے کرتی نظر آئی تھیں۔
علاوہ ازیں جمعرات کو اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب میں مولانا نے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ جو جیل جانے سے گھبراتے ہیں انہیں سیاست میں نہیں آنا چاہیے۔