اسلام آباد(سچ خبریں) استعفوں کے معاملے پر اختلافات کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کا سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اپوزیشن لیڈر کے عہدے کے لیے اعظم نذیر تارڑ کو نامزد کرنے پر بھی اختلاف تھا۔
ذرائع نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے نذیر تارڑ کی نامزدگی پر احتجاج کیا تھا کیوں کہ وہ بینظیر بھٹو قتل کیس میں ملزم کے وکیل تھے۔
ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ اسلام آباد میں پاکستان ڈیموکریکٹ موومنٹ کے اجلاس سے ایک روز قبل سابق صدر آصف علی زرداری نے مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف کو اس اقدام پر تحفظات سے آگاہ کیا تھا۔
ذرائع نے یہ بھی کہا کہ آصف زرداری نے سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار سے بھی بات کی تھی اور مسلم لیگ (ن) کے فیصلے پر اپنی مایوسی سے آگاہ کیا تھا۔
مسلم لیگ (ن) کے سینیئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ پارٹی نے پی ڈی ایم جماعتوں کے درمیان ہوئے سمجھوتے کے تحت نذیر تارڑ کو اپوزیشن لیڈر کے عہدے کے لیے نامزد کیا تھا۔
اعظم نذیر تارڑ ٹیکنوکریٹ نشست پر پہلی مرتبہ سینیٹر بنے اور پنجاب سے بلامقابلی منتخب ہونے والے 11 سینیٹرز میں شامل ہیں، انہوں نے بینظیر قتل کیس میں ملزم پولیس افسان کے وکیل کی حیثیت سے پیروی کی تھی۔
پیپلز پارٹی کے ایک اور رہنما نے پی ڈی ایم کمیٹی کے اجلاس میں دعویٰ کیا کہ فیصلہ یہ ہوا تھا کہ اگر یوسف رضا گیلانی چیئرمین سینیٹ بن جاتے ہیں تو اپوزیشن لیڈر کا عہدہ مسلم لیگ(ن) کو ملے گا کیوں کہ اپوزیشن بینچز پر سب سے بڑی پارٹی ہونے کی حیثیت سے اپوزیشن لیڈر کا عہدہ پیپلز پارٹی کا حق ہے۔
مزید یہ کہ پی پی پی رہنما نے کہا کہ موجودہ صورتحال اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ ایک ایسا شخص کہجسے پارلیمانی تجربہ ہو اسے اپوزیشن لیڈر بنایا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘اس صورتحال میں اپوزیشن کو متحد رکھنا مشکل کام ہے اور اس کے لیے سیاسی اور پارلیمانی تجربہ درکار ہے جو اعظم نذیر تارڑ کے پاس نہیں ہے۔
خیال رہے کہ اس وقت سینیٹ میں پیپلز پارٹی کے 21 سینیٹرز ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) کے اراکین سینیٹ کی تعداد 17 ہے، اس سے قبل راجا ظفر الحق اپوزیشن لیڈر تھے لیکن اس مرتبہ انہوں نے سینیٹ الیکشن میں حصہ نہیں لیا۔
دوسری جانب سینیٹ انتخابات میں پی ڈی ایم کے امیدوار نامزد کرنے والی کمیٹی کے سربراہ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کو اپوزیشن لیڈر کا عہدہ دینا متفقہ فیصلہ تھا اور اس کا سینیٹ چیئرمین کے انتخآب میں یوسف رضا گیلانی کی کامیابی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔