اسلام آباد:(سچ خبریں) نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے کہا ہے کہ حکومت اور ریاست کی رٹ قائم کرنا بہت ضروری ہے، اگر کوئی اسے چیلنج کرے گا اور پولیس والوں کی طرف ہاتھ بڑھائے گا تو وہ ہاتھ توڑیں گے، اب وہ چیز نہیں رہے گی۔
لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ پولیس مار کھاتی رہے اور ہم چپ کرکے بیٹھ جائیں کہ ابھی خون خرابے پر نہیں جانا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اور ریاست کی رٹ قائم کرنا بہت ضروری ہے تاکہ یہ بتایا جاسکے کہ ایک حکومت بھی موجود ہے اور ریاست بھی موجود ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 2 روز پہلے پولیس نے کینال روڈ کلیئر کیا تو چیکنگ کے لیے روڈ بلاک کرنے کی درخواست کی لیکن میں نے انکار کردیا۔
نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ پولیس 2 بار عمران خان کے گیٹ پر پہنچنے کے بعد اس لیے واپس لوٹ گئی کیونکہ میں نے انہیں واپس آنے کا کہا تھا، اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کے دن تک ہماری یہی کوشش ہے کہ کوئی ایسی چیز نہ ہو جس سے ماحول خراب ہو۔
انہوں نے کہا کہ کینال روڈ کھولنے کے بعد رات کے وقت وہاں سے ایک پولیس اہلکار گزر رہا تھا جسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اسے وہاں سے فرار ہونا پڑا جسے لوگوں نے بچایا، اس کے بعد وہاں سے ایلیٹ فورس کی ایک گاڑی گزر رہی تھی جسے روک کر ہتھیار لوٹ لیے گئے اور گاڑی کو توڑ کر کینال میں پھینک دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات کے بعد ریاست کی رٹ کس طرح قائم رہ سکتی ہے، میں نے آئی جی صاحب کو کہہ دیا ہے کہ آج یا کل صبح تک کا وقت طے کرلیں، اس کے بعد ریاست کی رٹ قائم کرنے کے لیے انہیں جو کرنا پڑے گا وہ کریں گے۔
محسن نقوی نے کہا کہ آج کے بعد اگر کوئی ریاست کی رٹ چیلنج کرے گا اور پولیس کی جانب ہاتھ بڑھائے گا تو اس کے ہاتھ توڑ دیں گے، یہ نہیں ہوسکتا کہ پولیس مار کھاتی رہے اور میری وجہ سے وہ چپ کرکے دیکھتے رہے ہیں، میں بہت دنوں سے انہیں حوصلہ دے رہا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ میں اپنی پولیس اور ریاست کے ساتھ کھڑا ہوں، اب اگر کوئی ایسا اقدام کرے گا تو انہیں ایسا جواب ملے گا کہ پتا چل جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے آئی جی صاحب کو کہا ہے کہ آپ تمام مطلوبہ قانونی اقدمات اٹھائیں، اب اگر کوئی ریاست کی رٹ کو چیلنج کرے گا تو اسے سخت جواب ملے گا، اب کسی کا لحاظ نہیں کیا جائے گا۔
نگران وزیر اعلیٰ پنجاب نے کہا کہ گزشتہ 5 سے 7 روز کے اندر جو جو قانون کی خلاف ورزیاں ہوئی ہیں اس پر حکومت پنجاب نے جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے، آج ہم اس کا نوٹی فکیشن جاری کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہ جے آئی ٹی ان تمام چیزوں کی تحقیقات کرے گی، پنجاب کے باہر سے آنے والے لوگوں کے معاملے کا بھی جائزہ لیا جائے گا، ان تمام غیر سیاسی کارروائیوں کی تفصیلات ہم الیکشن کمیشن کو بھی بھجوا رہے ہیں۔
انہوں نے اعلان کیا کہ اس سب کے دوران معمولی زخمی ہونے والے پولیس اہلکاروں کو ایک لاکھ اور شدید زخمی ہونے والے پولیس اہلکاروں کو 5 لاکھ روپے دیے جائیں گے۔
محسن نقوی نے مزید کہا کہ عمران خان نے کل پولیس والوں کو دھمکیاں دی ہیں، ہم یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ پولیس والوں کو اس طرح دھمکیاں دیں۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کو اگر پولیس پر اعتماد نہیں ہے تو انہیں پولیس نے جو سیکیورٹی دی ہوئی ہے اسے واپس بھجوا دیں، پولیس گالیاں کھا کر سیکیورٹی نہیں دے سکتی۔
ان کا کہنا تھا کہ میری عمران خان سے درخواست ہے کہ لاہور میں بیٹھ کر اس طرح اپنی پارٹی کو مت چلائیں، یہ کسی صورت قبول نہیں ہے کہ آپ اپنے کارکنان کو پولیس پر حملہ آور ہونے کی ہدایت دیں۔
دریں اثنا اسلام آباد پولیس نے 18 مارچ کو وفاقی دارالحکومت میں مبینہ طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملہ کرنے پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 198 حامیوں کی گرفتاری کا دعویٰ کیا ہے۔
اسلام آباد پولیس کی جانب سے کی جانے والی سلسلہ وار ٹوئٹس میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی مظاہرین نے اشتعال انگیزی، جلاؤ گھیراؤ، توڑ پھوڑ اور پولیس پر حملے کیے، وفاقی پولیس نے مختلف کارروائیوں میں جلاؤ گھیراؤ کرنے والے 198 ملزمان کو گرفتار کرلیا، مزید گرفتاریوں کے لیے پولیس ٹیمیں چھاپے مار رہی ہیں۔
اسلام آباد پولیس نے پُرتشدد واقعات پر تھانہ سی ٹی ڈی اور گولڑہ میں مقدمات درج کیےہیں، مظاہروں میں شامل شرپسندوں کے پتھراو، جلاؤ گھیراؤ سے پولیس کے 58 افسران و جوان زخمی ہوئے۔
اسلام آباد پولیس کا کہنا تھا کہ جلاؤ گھیراؤ میں پولیس کی 4 گاڑیاں جل گئیں، 9 گاڑیاں توڑ دی گئیں، 25 موٹر سائیکل جلائے گئے، پرتشدد کارروائیوں میں ملوث تمام شرپسند عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
دوسری طرف سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اسلام آباد میں فسطائیت اپنے عروج پر ہے جہاں پولیس ہمارےکارکنوں کو پکڑنےکے لیے بغیر وارنٹس گھروں پر چھاپے مار رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جہاں کارکن گھروں میں موجود نہیں وہاں 10 برس تک کےکم سِن بچوں کو اٹھایا جارہا ہے، ہمارے وہ تمام کارکن اور ان کے بچے فوراً رہا کیے جائیں جنہیں اغوا کیا جاچکاہے!
اس حوالے سے اسلام آباد پولیس نے کہا کہ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف سوشل میڈیا پر منظم پروپیگنڈہ مہم چلائی جارہی ہے۔
وفاقی پولیس کا ٹوئٹ میں کہنا تھا کہ اسلام آباد پولیس نے کسی 10 سال کے کم عمر بچے کو گرفتار نہیں کیا، پولیس افسران کو ان کے قانونی فرائض سے روکنے کے لیے نفرت انگیز پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے۔