اسلام آباد: (سچ خبریں) ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سیدال خان کی زیرِ صدارت سینیٹ کا اجلاس جاری ہے جس کے دوران وزیر خزانہ محمد اوررنگزیب نے کہا ہے کہ پنشن ایک بم کی شکل اختیار کرچکی ہے، اسے روکنا ہوگا، پنشن اصلاحات پر جلد قانون سازی لائیں گے۔
اجلاس کے شروع ہوتے ہی پی ٹی آئی اراکین سینیٹ اپنی نشستوں پر کھڑے ہوگئے، پی ٹی آئی اراکین نے بولنے کی کوشش کی، جس پرڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ وقفہ سوالات کے بعد آپ کو بولنے کا موقع دیں گے۔
وفاقی وزیر خزانہ میاں محمد اورنگزیب نے وقفہ سوالات پر جوابات دیتے ہوئے کہا کہ زراعت کے شعبہ کا اکنامی میں بہت اہم کردار ہے، زراعت فنانس کو بڑھانا ہے، لائیو اسٹاک اور ڈیری میں بھی فوکس کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ لائیو اسٹاک اور ڈیری کی بھی فنانسنگ کی ضرورت ہے، اسٹاک ایکسچینج میں اتار چڑھاؤ رہتا ہے، ہماری گزشتہ سال بچت زراعت کے شعبے سے ہوئی جس کی گروتھ 6 فیصد تھی، بڑے کے ساتھ چھوٹے کسانوں کی فنانسنگ بھی زیادہ کرنی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بینکوں کے ذریعے ڈیری اور لائیو اسٹاک کی فنانسنگ کو بھی آگے لے کر چلیں گے، ٹیکسٹائل کے علاوہ دیگر شعبوں میں برآمدات بڑھانا پڑیں گی، ایکسپورٹس بڑھانے کی پالیسی دی ہے اس پر کام بھی کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عشرت نے مفصل رپورٹ پیش کی تھی کابینہ میں کہ کس طرح حکومت کو رائٹ سائز کرنا ہے، 6 وزارتوں کی رائٹ سائزنگ پر کام کر رہے ہیں، ان پر عملدرآمد کرائے گے، جو ادارے نقصان میں چل رہے ہیں، وہاں سے اربوں روپے بچا سکتے ہیں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ پنشن ایک بم کی شکل اختیار کرچکی ہے اسے روکنا ہوگا، پنشن اصلاحات پر قانون سازی کرنا ہوگی، پنشن اصلاحات پر جلد قانون سازی لائیں گے، معیشت پر جلد ایوان کو سیر حاصل بات کروں گا۔
اجلاس کے دوران سینیٹر عرفان صدیقی نے پارلیمنٹ میں پریس گیلری کا دورہ کیا اور کہا کہ صحافیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے آیا ہوں، پی ٹی آئی جلسے میں صحافیوں کے خلاف بازاری زبان استعمال کی گئی، پی ٹی آئی جلسے میں 9 مئی کا بیانیہ ٹپک رہا تھا۔
سینیٹر شیری رحمٰن نے ارسا ایکٹ، 1992 میں مجوزہ تبدیلیوں پر صوبہ سندھ کے تحفظات پر توجہ دلاؤ نوٹس پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حقوق کو سلب کیا جارہا ہے، پورے صوبہ کے عوام کے حقوق کو پامال کیا جارہا ہے، سندھ میں پانی کی کمی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، دریائے سندھ کے ارد گرد تعمیرات بنائ جارہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پانی کی منصفانہ تقسیم پر وفاقی ڈھانچہ میں بہت بڑا مسئلہ ہے، جو صوبہ متاثر ہورہا ہے، اس سے پوچھا جائے، گورننس کے موجودہ ڈھانچے کو وفاق کے ماتحت لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں یا تو مون سون ہوتا ہے یا قحط سالی ہوتی ہے، میری سمجھ سے بالاتر ہے، اس طرح کی کاروائی کیوں کی جارہی ہے، اس طرح کے اقدامات آئین کی خلاف ورزی کرتے ہیں، دانستہ طور پر آپ سندھ کو محروم کر رہے ہیں، سندھ صوبائی اسمبلی نے اس کے خلاف قرارداد پیش کی ہے۔
ارسا ایکٹ میں مجوزہ ترمیم پر توجہ دلاو نوٹس پر ضمیر گھومرو نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پانی کا مسئلہ 1935 سے سندھ اور پنجاب کے درمیان ہے، واپڈا کو اج تک مشترکہ مفادات کونسل نے کنٹرول نہیں کیا اس پر ایک صوبے کا کنٹرول ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ارسا ایکٹ کا کام پانی تقسیم کو یقینی بنانا ہے، ارسا کی کمپوزیشن کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، سی سی ائی اور صوبائی حکومت کو بائی پاس کیا جا رہا ہے، 1945 کے معاہدے کے تحت تو سندھ اور پنجاب میں پانی اور بجلی کی برابر تقسیم تھی، سی سی ائی میں ہمارا اور بلوچستان کا ایک ایک رکن پنجاب کے چار رکن ہیں۔
جام سیف اللہ نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ پانی سمندر میں چلا جاتا ہے، سیلاب آتا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ کالا باغ ڈیم بننا چاہیے، سندھ میں پانچ پانچ سال خشک سالی ہوتی ہے اور پھر سیلاب آ جاتا ہے، سندھ میں پانی کم ہونے سے سات آٹھ اضلاع متاثر ہوتے ہیں، دس لاکھ ایکڑ زمین متاثر ہوتی ہے،ارساء ایکٹ میں ترامیم کا مقصد ہے کہ آمرانہ انداز سے اپنی بات منوائیں، اتنے حساس مسئلہ کو ہلکے انداز سے نہ لیں۔
سینیٹر پونجھو بھیل نے کہا کہ وزارت آبپاشی اٹھارویں ترمیم کے بعد غیر آئینی وزارت ہے، دریائے سندھ پر کوئی ڈیم نہیں بننے دیں گے۔
وفاقی وزیر ڈاکٹر مصدق ملک نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جو مقدمہ سندھ کا ہے، وہی پاکستان کا مقدمہ ہے، اس میں کوئی تفریق نہیں کی جارہی ہے، کوئی قانون اس پارلیمان سے گزرے بغیر نہیں بنتا، قانون سازی پارلیمنٹ کا حق ہے، ہم اپنی اتحادی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ جو قانون بنیں تو سیاسی حریفوں سے بھی مشاورت کریں، ارسا سے جو ڈاکومنٹ آیا ہے، اس پر تمام صوبوں کے ممبران نے دستخط کیا ہے، جو مسودہ آیا ہے، اس سے آپس کی تقرار کو ختم کرنا ہے، پانی کے معاملات پر اگر پارلیمنٹ نے قانون سازی نہیں کرنی تو پھر یہ ایک مثال بن جائے گی، اگر آپ سمجھتے ہیں کہ پارلیمنٹ قانون سازی نہ کرے اور یہ معاملہ سی سی آئی میں جائے تو آپ کی صوابدید ہے۔
مصدق ملک نے کہا کہ کوئی بھی چیز مشاورت کے بغیر نہیں ہوگی، پھر جھگڑا کی کوئی بات نہی ہے، ہر سال سمندر میں پانی 8.6 ملین ایکڑ پانی کی جگہ 18 ملین ایکڑ پانی گرا ہے، ہر سال اضافی پانی دریائے سندھ سے سمندر میں گرتا ہے۔
اس دوران حکومتی و اپوزیشن سینٹرز نے شور کیا کہ آپ غلط فگرز بتا رہے ہیں، سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ مصدق ملک غلط فگرز بتا رہے ہیں، ہمارے صوبے کا یہ زندگی موت کا مسئلہ ہے۔
مصدق ملک نے کہا کہ ابھی تک فلڈ نہیں آیا 18.8 ملین ایکڑ فٹ پانی اب تک سمندر میں جا چکا، 2019 میں سمندر میں 15 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندد میں گیا، 2019 سے 2022 تک 14 سے 8 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر گیا، اب کے سال پہلی بار 6 ماہ میں 18.6 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر جا چکا، صرف یہ کہوں گا جو یہ ایوان فیصلہ کرے گا وہی فیصلہ ہوگا۔
بھنگ کنٹرول اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی بل 2024 پر قائمہ کمیٹی سائنس ٹیکنالوجی نے رپورٹ پیش کردی، چئیرمین قائمہ کمیٹی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کامل علی آغا نے رپورٹ پیش کی۔
اس دوران اپوزیشن لیڈر شبلی فراز نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کل پارلیمنٹ کے ایوان کا تقدس پامال کیا گیا، کل رات پارلیمنٹ کی بے توقیری کی گئی، کل رات ایسے لگا جیسے پارلیمنٹ میں عوامی نمائندے نہیں بلکہ چور بیٹھے ہیں، پارلیمنٹ تو سب کا سانجھا ہے، حکومتی ارکان میں سے کسی نے اس عمل کی مذمّت نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ اس ایوان کو قرارداد پاس کرنی چاہیے تھی کل جو ہوا، پارلیمنٹ میں عوام کے لیے بات کم کی جاتی ہے، اور تحریک انصاف کے خلاف قوانین بنائے جارہے ہیں۔