اسلام آباد: (سچ خبریں) سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات میں تاخیر سے متعلق ازخود نوٹس میں وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا جو کل (بدھ) صبح 11 بجے سنایا جائےگا۔
گزشتہ روز سماعت کرنے والے 9 رکنی لارجربینچ سے 4 اراکین کے خود الگ ہونے کے بعد 5 رکنی بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر شامل ہیں۔
آج سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل شہزاد الہیٰ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے اعتراض کیا کہ عدالتی حکم میں سے سپریم کورٹ بار کے صدر کا نام نکال دیا گیا تھا، سپریم کورٹ بار ایسویشن کو ادارے کے طور پر جانتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو عدالت میں لکھوایا جاتا ہے وہ عدالتی حکمنامہ نہیں ہوتا، جب ججز دستحط کردیں تو وہ حکمنامہ بنتا ہے۔
اس دوران اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے صدر عابد زبیری نے دلائل شروع کیے جب کہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ صدر اور گورنر معاملے میں کابینہ کی ایڈوائس کے پابند ہیں، کیا الیکشن کی تاریخ صدر اور گورنرز اپنے طور پر دےسکتے ہیں؟
اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ نگران حکومت کی تعیناتی اور الیکشن کی تاریخ پر گورنر کسی کی ایڈوائس کاپابند نہیں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جہاں صوابدیدی اختیار ہو وہاں کسی ایڈوائس کی ضرورت نہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن کون کرے گا ؟ عابد زبیری نے مؤقف اپنایا کہ پنجاب اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن سیکرٹری قانون نے جاری کیا۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل نے اعتراض کیا کہ عابد زبیری درخواست گذار کے وکیل ہیں، بار کی نمائندگی نہیں کرسکتے، عابد زبیری نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ بار کا وکیل ہوں، کسی سیاسی جماعت کا نہیں، سپریم کورٹ ماضی میں قرار دے چکی ہے انتخابات 90 روز میں ہی ہونے ہیں۔
دوران سماعت اسپیکرز کے وکیل علی ظفر ، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری، جے یو آئی (ف) کے وکیل کامران مرتضیٰ، صدر مملکت کے وکیل سلمان اکرم راجا، اٹارنی جنرل شہزاد الہیٰ بھی کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ صدر ہر اقدام حکومت کی ایڈوائس پر کرتے ہیں، گورنر بھی صوبائی حکومت کی ایڈوائس پر عمل کرتے ہیں، عابد زبیری نے استدلال کیا کہ گورنر کو اختیار ہے اسمبلی تحلیل کرنے کا، آئین میں اسمبلی کی تحلیل کے 4 طریقے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اسمبلی تحلیل کرنے کا نوٹیفکیشن کون کرے گا، عابد زبیری نے کہا کہ اگر وزیر اعلیٰ ایڈوائس کرتا ہے تو گورنر نے نوٹیفکیشن کرنا ہوتا ہے، اگر گورنر دستخط نہیں کرتا تو 48گھنٹوں میں ازخود تحلیل ہو جاتی ہے، اس کیس میں گورنر کی بجاے اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن سیکریٹری لا نے کیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے وکیل عابد زبیر نے کہا کہ سیف اللہ کیس 12 ججز نے انتخاب کے عمل کو لازمی قرار دیا، جسٹس جمال نے کہا کہ آرٹیکل 48 کہتا ہے کہ صدر کا ہر عمل اور اقدام حکومت کی سفارش پر ہوگا، آیا موجودہ حکومت یا سابقہ حکومت انتخاب کے اعلان کا کہے گی؟
چیف جسٹس نے کہا کہ اس کے مطابق الیکشن کی تاریخ دینا ایڈوائس پر ہوگا، عابد زبیری نے کہا کہ آئین میں اسمبلی کی تحلیل کے چار طریقے بتائے گئے ہیں، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ نگران حکومت تو 7 روز بعد بنتی ہے، آئین کی مختلف شقوں کی آپس میں ہم آہنگی ہونا ضروری ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پنجاب کے کیس میں وزارت قانون نے نوٹیفکیشن جاری کیا گورنر نے نہیں، عابد زبیری نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 112 کے مطابق عدم اعتماد ایڈوائس پر یا پھر 48 گھنٹوں میں حکومت ختم ہوسکتی ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین کے مطابق آج بھی حکومت گورنر سے انتخاب کا کہہ سکتی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اگر حکومت کی تاریخ کے حوالے سے ایڈوائس آجائے تو گورنر کیسے انکار کرسکتا ہے، عابد زبیری نے مؤقف اپنایا کہ پنجاب میں 22 جنوری کو نگران حکومت آئی تھی، نگران حکومت کا اختیار روزمرہ کے امور چلانا ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ گورنر کہہ رہا ہے کہ اسمبلی میں نے تحلیل نہیں کی، عابد زبیری نے مؤقف اپنایا کہ تاریخ دینے کی بات کا زکر صرف آئین کے آرٹیکل 105 (3) میں ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ حکومت کے انتخاب کی تاریخ دینے پر کوئی پابندی نہیں، عابد زبیری نے کہا کہ اتنے دنوں سے اعلان نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ کہ رہے ہیں حکومت آئینی زمہ داری پوری نہیں کررہی؟ نوے روز میں الیکشن کرانا آئین کی روح ہے، اٹارنی جنرل سے کہیں گے آئینی نکات پر معاونت کریں، عابد زبیری نے استدلال کیاکہ وقت کے دباو میں اگر اسمبلی ٹوٹ جائے تو صدر مملکت تاریخ دے گا، میرے موقف ہے کہ انتخاب کی تاریخ دینا صدر مملکت کا اختیار ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ مشاورت میں وسائل اور حالات کا جائزہ لیا جائے گا، اگر الیکشن کمیشن انتحابات کرانے سے معذوری ظاہر کرے کیا پھر بھی گورنر تاریخ دینے کا پابند ہے، عابد زبیری نے کہا کہ گورنر ہر صورت تاریخ دینے کا پابند ہے، جسٹس محمد علئ مظہر نے کہا کہ گورنر کے پاس تاریح نہ دینے کا کوئی اختیار نہیں،
گورنر الیکشن کمیشن کے انتطامات مدنظر رکھ کر تاریخ دے گا، کیا صدر کابینہ کی ایڈوائس کے بغیر کوئی فیصلہ کرسکتا ہے؟
جسٹس جمال خان نے کہا کہ صدر کے اختیارات آئین میں واضح ہیں، صدر ہر کام کے لیے ایڈوائس کا پابند ہے، عابد زبیری نے کہا کہ صدر مملکت ہر کام کے لیے ایڈوائس کے پابند نہیں، صدر ہر وہ اختیار استعمال کرسکتے ہیں جو قانون میں دیا ہوا ہو، انتحابات کی تاریخ پر صدر اور گورنر صرف الیکشن کمیشن سے مشاورت کے پابند ہی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ صدر بطور سربراہ مملکت ایڈوائس پر ہی فیصلے کرسکتے ہیں, جسٹس محمد علی مظہر نے کہا گورنر جب بھی تاریخ دے گا 52 دنوں کا مارجن رکھا جائےگا، جسٹس جمال نے ریمارکس دیے کہ صدر کے اختیارات برارہ راست آئین نے نہیں بتائے، آئین میں اختیارات نہیں توپھر قانون کے تحت اقدام ہوگا، قانون بھی تو آئین کے تحت ہی ہوگا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اب تو آپ ہم سے پوچھنے لگ گئے ہیں کہ کرنا کیا ہے، صدر مملکت کس قانون کے تحت چھٹیاں لکھ رہے ہیں؟ عابد زبیری نے کہا کہ صدر مملکت نے مشاورت کےلئے خط لکھے ہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آئین میں تو کہیں مشاورت کا ذکر نہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اگر مان لیا قانون صدر مملکت کو اجازت دیتا ہے پھر صدر ایڈوائس کا پابند ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ نگران حکومت بھی تاریخ دینے کا کہہ سکتی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ دوسرے فریق کو سن کر فیصلہ کریں گے، صدر کو مشاورت کی ضرورت ہے یا نہیں۔
اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں مؤقف اپنایا کہ انتخابات 90 روز سے آگئے کون لیکر جا سکتا ہے یہ الگ بات ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن گورنر کی تاریخ کو آگے بڑھا سکتا ہے ، اٹارنی جنرل نے کہا کہ گورنر اگر 85 ویں دن الیکشن کا کہے تو الیکشن کمیشن 89 دن کا کہہ سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ گورنر کو اسی وجہ سے الیکشن کمیشن سے مشاورت کا پابند کیا گیا ہے، صدر ہو یا گورنر سب ہی آئین اور قانون کے پابند ہیں، اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ صدر الیکشن کی تاریخ صرف قومی اسمبلی تحلیل ہونے پر دے سکتے ہیں، دوسری صورت میں ملک بھر میں انتخابات ہوں تو ہی صدر تاریخ دے سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ صدر کے صوابدیدی اور ایڈوائس پر استعمال کرنے والے اختیارات میں فرق ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ گورنر اسمبلی تحلیل کے اگلے دن انتخابات کا کہہ دے تو الیکشن کمیشن نہیں مانے گا، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ گورنر نے الیکشن ایکٹ کو بھی مدنظر رکھنا ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن 90 روز میں ہی ہونے چاہیں، الیکشنز کو 90 روز سے آگے نہیں لیکر جانا چاہیے۔
اٹارنی جنرل کے دلائل جاری تھے کہ اس دوران عدالت عظمیٰ نے سماعت میں ساڑھے گیارہ بجے تک وقفہ کردیا۔
بعد ازاں وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل شہزاد الہی نے اپنے دلائل کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ الیکشن کمیشن آزاد ادارہ ہے جس کی ذمے داری انتخابات کرانا ہے، گورنر پنجاب کا موقف ہے الیکشن کمیشن خود تاریخ دے، گورنر نے انٹرا کورٹ اپیل میں کہا ہے کہ ان سے مشاورت کی ضرورت نہیں، الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ وہ ازخود تاریخ کیسے دے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سمجھ نہیں آتا ہائیکورٹ میں 14 دن کا وقت کیوں مانگا گیا؟ بطور اٹارنی جنرل آپ کیس شروع ہوتے ہی مکمل تیار تھے، ایسے کونسے نکات تھے جس کی تیاری کےلئے وکلاء کو 14 دن درکار تھے، ہائیکورٹ میں تو مقدمہ روزانہ کی بنیاد پر چلنا چاہیے تھا۔
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ اسمبلی مدت پوری کرے تو صدر کو ایڈوائس کون کرے گا، اسمبلی مدت پوری کرے تو دو ماہ میں انتخابات لازمی ہیں، ایڈوائس تو صدر 14 دن بعد واپس بھی بجھوا سکتے ہیں۔
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ سمری واپس بجھوانے کی صورت میں 25 دن تو ضائع ہوگئے، وزیر اعظم کو اعتماد کے ووٹ کا کہنا صدر کی صوابدید ہے، صدر کا اعتماد کے ووٹ کا کہنے کے لیے کسی سمری کی ضرورت نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ حالات میں 90 روز میں الیکشن ضروری ہیں، پشاور ہائی کورٹ نے 2 ہفتے نوٹس دینے میں لگائے، لاہور ہائی کورٹ میں بھی معاملہ زیر التوا ہے، سپریم کورٹ میں آج مسلسل دوسرا دن ہے اور کیس تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کسی فریق کی نہیں بلکہ آئین کی حمایت کر رہی ہے، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عدالت ہائی کورٹس کو جلدی فیصلے کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت معاملہ آگے بڑھانے کے لیے محنت کر رہی ہے، ججوں کی تعداد کم ہے پھر بھی عدالت نے ایک سال میں 24 بڑے مقدمات نمٹائے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ دینا صدر کی صوابدید ہے، اسمبلی مدت پوری ہو تو صدر کو فوری متحرک ہونا پڑتا ہے۔
پی پی پی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے قواعد میں بینچ کی تشکیل کا طریقہ کار موجود ہے، سپریم کورٹ کے قواعد کے مطابق یہ آگاہ کرنا ضروری ہے کہ معاملہ ہائی کورٹ میں ہے یا نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ درخواست گزار نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہو تو بتانا ضروری ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے اس دوران کہا کہ میں سینیٹر ہوں ابھی سینیٹ اجلاس نہیں ہو رہا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ3 ہفتوں سے ہائی کورٹ میں صرف نوٹس ہی چل رہے ہیں، اعلیٰ عدلیہ کو سیاسی تنازع میں نہیں پڑنا چاہیے۔
چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ صرف مخصوص حالات میں عدالت ازخود نوٹس لیتی ہے، گزشتہ سال 2 اور اس سال صرف ایک ازخود نوٹس لیا۔
چیف جسٹس عمر عطابندیال کا کہنا تھا کہ سب متفق ہیں کہ آرٹیکل 224 کے تحت 90 روز میں انتخابات لازم ہیں، عدالت تلاش میں ہے کہ الیکشن کی تاریخ کہاں سے آنی ہے، مستقبل میں الیکشن کی تاریخ کون دےگا اس کا تعین کرنا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ صرف قانون کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں، عدالت کسی سے کچھ لے رہی ہے اور نہ دے رہی ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ جوڈیشل ایکٹوازم میں تحمل پر عدالت کا مشکور ہوں۔
مسلم لیگ (ن) کے وکیل منصور اعوان نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ بطور سیاسی جماعت مسلم لیگ (ن) نہیں چاہتی کہ آئین کی خلاف ورزی ہو، قومی اسمبلی کا الیکشن ہو گا تو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں منتحب حکومتیں ہوں گی۔
انہوں نے کہا کہ منتخب حکومتوں کے ہوتے ہوئے یکساں میدان ملنا مشکل ہے، پھر قومی اسمبلی کے انتحابات پر سوالیہ نشان اٹھے گا، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ یہ مسئلہ اس وقت عدالت کے سامنے نہیں ہے۔
مسلم لیگ(ن) کے وکیل منصور اعوان نے کہا کہ عدالت مردم شماری کو بھی مدنظر رکھے، 30 اپریل تک مردم شماری مکمل ہو جائے گی، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر مردم شماری انتحابات سے ایک ہفتہ پہلے ہو تو کیا الیکشن ملتوی ہو جائیں گے۔
جسٹس منیب اختر کے سوال پر منصور اعوان نے کہا کہ مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں ہوتی ہیں، موجودہ کیس میں دو اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہیں، وفاق میں سیاسی حکومت ہے وہ کیسے صوبے میں اثر انداز نہیں ہو گی۔
منصور اعوان کا کہنا تھا کہ وفاق کے پاس توانائی کے شعبے کے علاوہ کچھ نہیں بچا، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ مردم شماری بھی وفاق کے ہی زیر انتظام ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا گارنٹی ہے مردم شماری 30 اپریل کو شائع ہو جائے گی، 2016 کی مردم شماری بھی 2022 میں شائع ہوئی۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آئین واضح ہے کہ انتحابات 90 دن میں ہوں گے، وکیل منصور اعوان نے کہا کہ 1975 میں آرٹیکل 184/3 کی پہلی درخواست آئی تھی اور عدالت نے تمام اعتراضات مسترد کرتے ہوئے مقدمہ سنا تھا۔
مسلم لیگ (ن) کے وکیل منصور اعوان نے کہا کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ آ چکا ہے جو سپریم کورٹ میں چینلج نہیں ہے، اگر عدالت کہتی ہے کہ گورنر تاریخ دے گا تو کوئی مسئلہ نہیں اور اگر عدالت کسی اور نتیجے پر گئی تو ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم ہو جائے گا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ موجودہ حالات میں مقدمات دو مختلف ہائی کورٹس میں ہیں، ایسا بھی ممکن ہے دونوں عدالتیں متضاد فیصلے دیں، وقت کی کمی کے باعث معاملہ اٹک سکتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ بھی ممکن ہے ہائی کورٹس کا فیصلہ ایک جیسا ہو اور کوئی چیلنج نہ کرے، جس پر مسلم لیگ (ن) کے وکیل نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے دو آئینی اداروں کو مشاورت کا کہا تاہم جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اصل معاملہ وقت کا ہے جو کاقی ضائع ہو چکا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ 90 دن کا وقت گزر گیا تو ذمہ دار کون ہوگا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں کیس زیادہ تاخیر کا شکار نہیں ہو رہا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے وکیل نے کہا کہ امکان ہے ہائی کورٹس کے فیصلے مختلف ہی آئیں گے اور اس کے ساتھ منصور اعوان نے اپنے دلائل مکمل کرلیے۔
دلائل مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے جسے کل سنایا جائے گا۔