اسلام آباد: (سچ خبریں) الیکشن کمیشن آف پاکستان نے قومی اسمبلی کے 266 اور صوبائی اسمبلیوں کے 593 حلقوں کی حتمی فہرست جاری کر دی ہے۔
ہفتہ کو الیکشن کمیشن نے ایک بیان میں کہا کہ کسی بھی حلقے کی حتمی حد بندی کی نقل اسلام آباد میں کمیشن کے سیکریٹریٹ سے حاصل کی جا سکتی ہے۔
الیکشن کمیشن نے ابتدائی فہرست جاری کرنے کے تقریباً دو ماہ بعد حتمی فہرست جاری کی ہے جہاں ابتدائی فہرست میں کمیشن نے قومی اسمبلی کی نشستوں کو 342 سے کم کر کے 336 کر دیا تھا۔
ابتدائی حد بندی میں الیکشن کمیشن نے قانون کے مطابق قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں کی تعداد 272 سے کم کر کے 266 کر دی تھی، خواتین کی 60 اور اقلیتوں کی 10 نشستوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔
نشستوں کی تعداد میں کمی کی وجہ یہ تھی کہ 25ویں آئینی ترمیم کے بعد 2018 میں خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والی فاٹا کے لیے مختص 12 نشستیں ختم کردی گئیں اور آبادی کی بنیاد پر خیبر پختونخوا کو چھ نشستیں مختص کی گئی تھیں۔
جہاں تک صوبوں کا تعلق ہے پنجاب کو این اے میں 141 جنرل نشستیں، سندھ کو 61، خیبر پختونخوا کو 45، بلوچستان کو 16 اور اسلام آباد کو تین نشستیں دی گئیں۔
خیبر پختونخوا میں قومی اسمبلی کے ایک حلقے کے لیے حد بندی کرتے ہوئے آبادی کی حد 7لاکھ 88ہزار933، اسلام آباد میں 6لاکھ 67ہزار789، پنجاب 7لاکھ 80ہزار 69، سندھ میں 7لاکھ 84ہزار500 اور بلوچستان میں 77ہزار946 رکھی گئی ہے۔
ابتدائی فہرست الیکشن کمیشن کی جانب سے اپریل میں اعلان کردہ شیڈول کے مطابق جاری کی گئی تھی جس کے چند دن بعد انتخابی نگراں ادارے نے اکتوبر سے پہلے عام انتخابات کے انعقاد سے معذوری ظاہر کی تھی۔
شیڈول کے مطابق حد بندی کمیٹیوں کو 20 سے 24 اپریل کے درمیان تربیت فراہم کی جانی تھی، چیف سیکریٹریز اور صوبائی الیکشن کمشنرز کو 26 اپریل تک اضلاع، تحصیلوں وغیرہ کی تفصیل سمیت حد بندی کے لیے مطلوبہ نقشے اور دستاویزات فراہم کرنے تھے اور ابتدائی حد بندییں 28 مئی کو شائع 28 مئی کو شائع کی جائیں گی۔
اس کے بعد 29 مئی سے 28 جون تک ابتدائی حد بندی پر لوگ اپنے اعتراضات اور سفارشات الیکشن کمیشن کو پیش کریں گے، الیکشن کمیشن نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ یکم جولائی سے 30 جولائی تک تمام اعتراضات سن کر فیصلہ کرے گا اور حلقہ بندیوں کی حتمی فہرست جاری 3 اگست کو شائع ہو گی۔
4 اپریل کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مختلف قانونی رکاوٹوں اور طریقہ کار کے چیلنجوں کا حوالہ دیتے ہوئے تین ماہ کے اندر عام انتخابات کرانے سے اپنی نااہلی کا اظہار کیا تھا۔
الیکشن کمیشن کے ایک سینئر عہدیدار نے اس وقت ڈان کو بتایا تھا کہ عام انتخابات کی تیاریوں میں 6 ماہ لگیں گے، حلقہ بندیوں کی تازہ حد بندی بالخصوص خیبر پختونخوا اور ضلع اور حلقہ وار انتخابی فہرستوں کو ہم آہنگ کرنا بڑے چیلنجز ہیں۔
کمیشن نے بعد میں وضاحت کی تھی کہ اس نے انتخابات کے انعقاد کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی نہیں کہا کہ آیا وہ تین ماہ میں انتخابات کرانے کے لیے تیار ہیں یا نہیں۔
6 اپریل کو صدر عارف علوی نے الیکشن کمیشن کو خط لکھا تھا جس میں آئین کے آرٹیکل 224 (2) کے تحت ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخیں تجویز کی گئی تھیں۔
یہ پیشرفت قومی اسمبلی کے اس وقت کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے پیش کیے جانے کے بعد سامنے آئی تھی اور صدر نے 3 اپریل کو سابق وزیراعظم کے مشورے پر پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کو تحلیل کردیا تھا۔
7 اپریل کو صدر کے خط کے جواب میں الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ اکتوبر سے پہلے انتخابات نہیں ہو سکتے اور حد بندی کے عمل کو مکمل کرنے کے لیے مزید چار ماہ درکار ہیں۔