اسلام آباد (سچ خبریں) اطلاعات کے مطابق پاکستان اور بھارت سے اعلیٰ انٹیلیجس افسران نے کشمیر کے معاملے پر حالیہ تناؤ کم کرنے کے لیے نئی کوشش کے طور پر جنوری میں دبئی میں خفیہ بات چیت کی تھی برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق یہ بات نئی دہلی میں اس معاملے کی معلومات رکھنے والے افراد نے بتائی۔
ان لوگوں کا کہنا تھا کہ دونوں حکومتوں نے بیک چینل سفارتکاری دوبارہ شروع کی ہے جس کا مقصد آئندہ کئی ماہ میں تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ایک معمولی روڈ میپ بنانا ہے۔
خیال رہے کہ کشمیر بھارت اور پاکستان کے مابین طویل عرصے سے متنازع ہے، دونوں ممالک پورے خطے پر اپنا دعویٰ کرتے ہیں لیکن صرف ایک حصے پر حکمرانی کرتے ہیں۔
2 افراد نے بتایا کہ پاکستان کی انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) اور بھارتی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالسز ونگ (را) کے عہدیداران ایک اجلاس کے لیے دبئی گئے تھے جس کا انعقاد متحدہ عرب امارات کے تعاون سے ہوا تھا۔
تاہم ان رپورٹس کی پاکستانی فوج اور بھارتی وزارت خارجہ سے تصدیق کی کوششیں خالی گئیں۔
تاہم ایک دفاعی تجزیہ کار عائشہ صدیقہ نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ پاکستانی اور بھارتی انٹیلجنس عہدیداران تیسرے ممالک میں کئی ماہ سے ملاقات کررہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘میرے خیال میں اعلیٰ سطح کے لوگوں نے تھائی لینڈ، دبئی اور لندن میں ملاقاتیں کی ہیںعائشہ صدیقہ نے کہا کہ اس قسم کی ملاقاتیں ماضی میں بھی ہوتی رہی ہیں بالخصوص بحران کے وقت لیکن سرِ عام کبھی ان کا اعتراف نہیں کیا گیا۔
دہلی سے ایک فرد نے کہا کہ ‘بہت ساری باتیں اب بھی غلط ہوسکتی ہیں ، یہ بہت ہی معنی خیز ہے ایک اور فرد کا کہنا تھا کہ اس لیے کوئی سرِ عام اس معاملے پر بات نہیں کررہا، ہمارے پاس اس کے لیے کوئی نام نہیں ہے، یہ امن عمل نہیں ہے، آپ اسے دوبارہ رابطے کہ سکتے ہیں۔
کشمیر دشمنی پر کتاب لکھنے والی مائرہ میک ڈونلڈ نے کہا کہ ‘بھارت اور پاکستان کے لیے بات چیت نہ کرنے سے بہتر بات چیت کرنا ہے اور اس سے بھی زیادہ بہتر یہ ہے کہ یہ تشہیر کی چکا چوند کے بجائے خاموشی سے ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘لیکن بنیادی تناؤ کے انتظام سے بہت آگے نکلتے نہیں دیکھ رہی، ممکنہ طور پر مشکل وقت میں دونوں ممالک کی مدد کرنا ہے’۔
مائرہ میک ڈونلڈ نے کہا کہ پاکستان کو افغانستان سے امریکی انخلا کے نتائج کو حل کرنے کی ضرورت ہے جبکہ بھارت کو چین کے ساتھ اپنی متنازع سرحد پر کہیں زیادہ غیر مستحکم صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔