اسلام آباد:(سچ خبریں) وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے ڈالر کو 200 روپے سے نیچے لانے کے عزم کا ایک بار پھر اعادہ کیا ہے اور اسٹیک ہولڈرز کو یقین دہانی کرائی کہ پاکستان ملکی اور غیرملکی قرض ادا کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔
اسحٰق ڈار نے گزشتہ روز کمرشل بینکوں کے سربراہان اور بڑی ایکسچینج کمپنیوں کے سربراہوں کے ساتھ 2 اجلاسوں میں ملاقات کی۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے خزانہ طارق باجوہ، معاون خصوصی برائے ریونیو طارق پاشا، گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان جمیل احمد سمیت فنانس ڈویژن اور اسٹیٹ بینک کے سینئر حکام نے اجلاس میں شرکت کی۔ بینک سربراہان کے ساتھ ملاقات کے دوران اسحٰق ڈار نے حکومت کی ترجیحات سے شرکا کو آگاہ کیا اور مستحکم اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں کو یقینی بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔
وزیر خزانہ نے بینکوں کو یقین دہانی کروائی کہ حکومت کی مالی صورتحال مکمل طور پر سازگار ہے اور حکومت اپنے ملکی اور عالمی معاہدوں کو پورا کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ مجموعی معاشی منظرنامے پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی دور اندیشی اور عملی پالیسیوں کے سبب ملک کی معیشت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔
ایکسچینج کمپنیوں کے سربراہوں کے ساتھ اپنی ملاقات میں وزیر خزانہ نے اسمگلروں کو خبردار کیا کہ وہ ڈالر کی ذخیرہ اندوزی اور تجارت سے باز رہیں۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ انتباہ ایکسچینج کمپنیوں کے لیے بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ یہ ان کی موجودگی میں جاری کیا گیا۔
تاہم اجلاس میں شرکت کرنے والے ایکسچینج کمپنیوں کے نمائندوں نے کہا کہ وزیر خزانہ کا ایکسچینج کمپنیوں کے ساتھ نرم رویہ ہے اور انہوں نے ڈالر کی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کی حمایت کرنے کی اپیل کی ہے۔ علاوہ ازیں وزیر خزانہ نے فاریکس کمپنیوں سے بھی درخواست کی کہ وہ ملک کی بہتری کے لیے مناسب شرح تبادلہ کو یقینی بنائیں۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے اپنے عملی فیصلوں سے نہ صرف معیشت کے زوال کو روکا ہے بلکہ اسے درست سمت میں بھی گامزن کیا ہے۔ سیکریٹری ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان جنرل ظفر پراچہ نے کہا کہ اسحٰق ڈار نے ڈالر ذخیرہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا انتباہ دیا ہے۔
ظفر پراچہ نے کہا کہ وزیر خزانہ نے یقین دلایا کہ روپے کی قدر میں جلد اضافہ ہوگا کیونکہ ڈالر کی اصل قیمت 200 روپے سے کم ہے، اسحٰق ڈار نے مسلم لیگ (ن) کی سابقہ دورِ حکومت کا بھی حوالہ دیا جب ڈالر کنٹرول میں تھا اور شرح سود بھی موجودہ 15 فیصد کے بجائے 10 فیصد سے بھی نیچے تھی۔
یہ ملاقاتیں ایک ایسے وقت میں ہوئی ہیں جب اسحٰق ڈار یکم نومبر سے کئی تجاویز کے ساتھ دورہ چین پر روانہ ہورہے ہیں، ان تجاویز میں پاکستان کو ڈیفالٹ جیسی صورتحال سے بچنے میں مدد کے لیے قرض کی ادائیگی مؤخر کرنے کی درخواست بھی شامل ہے۔