اسلام آباد:(سچ خبریں) وزیراعظم شہباز شریف مصر میں اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کی 27ویں کانفرنس (کوپ 27) کے سربراہی اجلاس میں شرکت کرنے کے بعد لندن کے لیے روانہ ہوگئے۔
وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’وزیر اعظم شہباز شریف کوپ 27 کانفرنس میں شرکت کے بعد نجی پرواز سے نجی دورے پر لندن روانہ ہوگئے ہیں‘۔
وزیر اعظم شہباز شریف کے بھائی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف بھی 2019 سے لندن میں مقیم ہیں، جبکہ رواں سال اکتوبر میں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز بھی اپنے والد نواز شریف سے ملنے لندن روانہ ہوئی تھیں۔
وزیر اعظم کے لندن روانہ ہونے کے بعد خبریں گردش کر رہی ہیں کہ ان کے دورے کے دوران کئی اہم فیصلے متوقع ہیں۔
رواں سال اپریل میں وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد شہباز شریف کا لندن کا یہ تیسرا دورہ ہے جبکہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت 29 نومبر کو ختم ہو رہی ہے، جس کے بعد نئے آرمی چیف کی تعیناتی ہوگی۔
اس سے قبل یہ خبریں بھی گردش کر رہی تھیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے لیے نواز شریف سے مشاورت کریں گے، اس خبر کی تصدیق وزیر توانائی خرم دستگیر نے بھی کی تھی۔
اس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی پر نواز شریف سے مشاورت کرنا آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور وزیر اعظم کے حلف کی خلاف ورزی ہے۔ اس سے قبل ستمبر میں وزیر اعظم شہباز برطانیہ کی آنجہانی ملکہ الزبتھ کی آخری رسومات میں شرکت کرنے کے لیے لندن روانہ ہوئے تھے۔
اس وقت یہ بھی یہ خبریں گردش کر رہی تھیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف آرمی چیف کی تقرری کے لیے نواز شریف سے مشورہ کر رہے ہیں اس کے علاوہ جب وہ وطن کے لیے روانہ ہوئے تو شہباز شریف پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور نئے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے ساتھ پاکستان پہنچے تھے۔
اسحٰق ڈار 5 برسوں سے لندن میں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے، کئی مہینوں سے پارٹی کی جانب سے قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں کہ وزیرخزانہ کے لیے اسحٰق ڈار کو تعینات کیا جائےگا۔ اسحٰق ڈار کے پاکستان پہنچے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے مفتاح اسمٰعیل مستعفی ہوگئے اور اسحٰق ڈار نئے وزیر خزانہ بن گئے تھے۔
اس سے قبل شہباز شریف وفاقی وزرا کے وفد کے ہمراہ رواں سال مئی میں نواز شریف سے ملنے لندن روانہ ہوئے تھے، ملاقات میں عمران خان کے نئے انتخابات کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔ بالآخر حکمراں اتحاد نے عام انتخاب کرانے اور عمران خان کے مطالبے کو تسلیم کرنے کے خلاف فیصلہ کیا۔