اقوام متحدہ: (سچ خبریں) وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ دنیا کو پاکستان کے حالات بتانے آیا ہوں، پاکستان کا ایک تہائی حصہ زیر آب ہے، قدرتی آفت کی وجہ سے بے گھر ہونے والے افراد خیمہ لگانے کے لیے خشک جگہ کی تلاش میں ہیں، کوئی الفاظ صدمے کا اظہار نہیں کرسکتے جس سے ہم دوچار ہیں۔ عالمی برادری مدد کرے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77ویں اجلاس میں خطاب کا آغاز وزیراعظم نے قرآن پاک کی آیات سے کیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ میں یہاں پاکستان کی سٹوری بتانے کے لیے موجود ہوں، میرا دل اور دماغ وطن کی یاد چھوڑنے کو تیار نہیں ہے، میں اب بھی یہی محسوس ہورہا ہے کہ میں سیلاب سے متاثرہ سندھ یا پنجاب کسی علاقے کا دورہ کررہا ہوں، کوئی الفاظ صدمے کا اظہار نہیں کرسکتے جس سے ہم دوچار ہیں۔ میں یہاں پر موسمیاتی آفات سے تباہ کاریوں کی شدت کو بتانے آیا ہوں، جس کی وجہ سے پاکستان کا ایک تہائی حصہ زیر آب ہے، 40 دن اور 40 رات شدید سیلاب نے صدیوں کے موسمیاتی ریکارڈ توڑ دیے ہیں، ہمیں اس آفات اور اس سے نمٹنے کے بارے میں آگہی ہے، آج بھی پاکستان کا بیشتر پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بچوں اور خواتین سمیت 3 کروڑ 30 لاکھ افراد کو صحت کے خطرات درپیش ہیں، 6 لاکھ 50 ہزار حاملہ خواتین خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں، 1500 سے زیادہ لوگ جاں بحق ہو چکے ہیں، جس میں 400 بچے بھی شامل ہیں، لوگ غذائی قلت کا شکار ہیں۔سیلاب کی وجہ سے بے گھر ہونے والے افراد خیمہ لگانے کے لیے خشک جگہ کی تلاش میں ہیں، متاثرین اور ان کے اہل خانہ کو دل دکھا دینے والے نقصانات ہوئے ہیں، ان کا روزگار آنے والے لمبے عرصے کےلیے چھن گیا۔ ابتدائی تخمینے کے مطابق 13 ہزار کلومیٹر کی سڑکیں اور 10 لاکھ سے زائد گھر تباہ ہو ئے اور مزید 10 لاکھ کو جزوی نقصان ہپنچا، جبکہ 370 پل بہہ گئے۔ تباہ کن سیلاب کی وجہ سے 10 لاکھ مویشی ہلاک ہوئے، 40 لاکھ ایکٹر رقبے پر فصلیں تباہ ہوئیں، تباہی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے گلوبل وارمنگ کی تاریک اور تباہ کن اثرات کی مثالیں نہیں ہیں، کوئی الفاظ صدمے کا اظہار نہیں کرسکتے جس سے ہم دوچار ہیں۔ پاکستان میں زندگی ہمیشہ کے لیے تبدیل ہو چکی ہے، میں نے ہر تباہ کن علاقے کا دورہ کیا۔ پاکستان کے عوام پوچھتے ہیں کہ یہ تباہی کیوں ہوئی اور کیا جاسکتا ہے اور کیا ہونا چاہیے، ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ ہماری وجہ سے ہے۔ ہماری گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہی ہیں، جنگلات جل رہے ہیں اور ہیٹ ویو 50 ڈگری سے بڑھ گئی ہیں اور اب ہم غیرمعمولی جان لیوا مون سون کا سامنا کر رہے ہیں۔ دنیا میں جو کاربن فضا میں بھیجی جا رہی ہے پاکستان کا اس میں ایک فیصد حصہ بھی نہیں ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے پاس فنڈز اور ضروریات کے درمیان فرق بڑھتا جا رہا ہے، جس حد تک ممکن ہے اپنے اخراجات سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے وقف کیے ہیں، میرا سوال ہے کیا ہم اس بحران میں اکیلے رہ جائیں گے، جس کے ہم ذمے دار نہیں ہیں، سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ریسکیو اینڈ ریلیف آپریشن جاری ہے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے ہم متاثرہ خواتین کی مدد کر رہے ہیں، یہ پروگرام سابق وزیراعظم کے نام پر شروع کیا گیا جن کا بیٹا ہمارے وزیر خارجہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں ماورائے عدالت قتل کیے جا رہے ہیں، مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس لیے دنیا سے موسمیاتی انصاف کی امید لگانا غلط نہ ہو گا، بھارت سمیت تمام ہمسایہ ممالک سے پر امن تعلقات چاہتے ہیں، خطے میں مستحکم امن کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے، مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے غیر قانونی یکطرفہ اقدامات سے امن عمل متاثر ہوا، نئی دہلی نے مقبوضہ کشمیر میں پانچ اگست کے غیر قانونی اقدام اٹھایا، بھارت کو سمجھنا ہو گا جنگ آپشن نہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ 20 ویں صدی کےمعاملات سےتوجہ ہٹا کر 21 ویں صدی کےمسائل پرتوجہ دینےکی ضرورت ہے ورنہ جنگیں لڑنے کیلئے زمین ہی باقی نہیں بچے گی۔ جنوبی ایشیا میں امن کا انحصار مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسئلے کے حل پر ہے، کشمیریوں کے خلاف بھارتی بربریت نے کشمیرکو دنیا کا سب سے بڑا فوجی علاقہ بنا دیا ہے، بھارت مسلم اکثریت والےکشمیر کو ہندو اکثریت میں بدلنے کیلئے غیر قانونی تبدیلیاں کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق رائےدہی یقینی بنانےتک مسئلہ کشمیرحل نہیں ہوگا، ہم پڑوسی ہیں ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم امن کے ساتھ رہیں یا جنگ کر کے، جنگ کوئی آپشن نہیں، صرف پر امن مذاکرات ہی حل ہے۔ بھارت کے ساتھ امن چاہتے ہیں لیکن یہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر ممکن نہیں۔ بھارت سمیت تمام ہمسائیہ ممالک سے پرامن تعلقات چاہتے ہیں، خطے میں مستحکم امن کیلئے مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے، مقبوضہ کمشیر میں بھارت کے غیرقانونی اور یکطرفہ اقدامات سے امن عمل متاثر ہوا، بھارت مقبوضہ کمشیر میں 5 اگست کے غیرقانونی اقدامات واپس لے، مقبوضہ کشمیر میں ماورائے عدالت قتل کیا جا رہا ہے ، پاکستان خطے میں امن کے عزم پر قائم ہے، بھارت کو سمجھنا ہوگا دونوں ممالک ایٹمی قوت ہیں جنگ آپشن نہیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ میں بھارت کے ساتھ بیٹھ کر مسئلہ کشمیر پر بات چیت کیلئے تیار ہوں، بات چیت کیلئے تیار ہوں تاکہ مشترکہ وسائل عوام کی بہتری کیلئے استعمال کرسکیں، مشترکہ وسائل ماحولیاتی مسائل کے حل کیلئے استعمال کرسکیں۔ ہم بھارت کے ساتھ طویل مدت کا امن چاہتے ہیں، بھارت سے طویل امن صرف مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل سے ہی ممکن ہے۔ سلامتی کونسل میں مزید 11 غیر مستقل ارکان شامل کرکے اس کے اختیارات بڑھانےکی ضرورت ہے، سلامتی کونسل میں مزید مستقل ارکان شامل کرنے سے توازن خراب ہوگا،بہتر نہیں۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ پُرامن اور خوشحال افغانستان ہمارے اجتماعی مفاد میں ہے، ہمیں ایک اور سول جنگ اور دہشت گری سے بچنا چاہیے، کوئی بھی ہمسایہ ممالک ان ممالک کے مہاجرین کو پناہ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے، پاکستان عالمی برادری پر زور دیتا ہے کہ افغانستان کے لیے انسانی اور معاشی امداد کے لیے سیکریٹری جنرل کی 4.2 ارب ڈالر کی اپیل پر مثبت ردعمل دے اور افغانستان کے منجمد اثاثے بحال کرے۔ افغانستان سے کام کرنے والے بڑے دہشت گرد گروپوں خاص طور پر آئی ایس آئی ایل۔کے اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) کے ساتھ ساتھ القاعدہ، ای ٹی آئی ایم اور آئی ایم یوسے لاحق خطرے کے حوالے سے عالمی برادری کی کلیدی تشویش کا اظہار کرتا ہے، بین الاقوامی برادری کو افغانستان کی سنگین انسانی ضروریات کو پورا کرنا چاہیے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار ہے، گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ہم نے دہشت گردی کے حملوں کی وجہ سے 80 ہزار سے زیادہ ہلاکتیں اور 150 ارب ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان اٹھایا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلامو فوبیا ایک عالمی رجحان ہے، نائن الیون کے بعد سے مسلمانوں کے بارے میں شک اور خوف اور ان کے خلاف امتیازی سلوک وبائی شکل اختیار کر گیا ہے، بھارت کے 20 کروڑ سے زیادہ مسلمانوں کے خلاف جبر کی سرکاری طور پر سپانسر شدہ مہم اسلام فوبیا کا بدترین مظہر ہے۔
رواں برس کے آغاز میں اس اسمبلی نے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی جانب سے پاکستان کی طرف سے متعارف کرائی گئی ایک تاریخی قرارداد کو منظور کیا، جس میں 15 مارچ کو اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے عالمی دن کے طور پر منایا گیا، میری مخلصانہ امید ہے کہ یہ اقوام متحدہ اور رکن ممالک کی طرف سے اسلامو فوبیا کا مقابلہ کرنے اور بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے ٹھوس اقدامات کا باعث بنے گا۔