اسلام آباد: (سچ خبریں) سپریم کورٹ کے جج محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے ہیں کہ ناقص تفتیش بتدریج عدالتی عمل کو آلودہ کرتی ہے اور انسانی حقوق کے لیے خطرہ بن جاتی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ ریمارکس اس وقت سامنے آئے جب 3 ججوں پر مشتمل بینچ نے شہری اکرام الدین راجپوت کی درخواست پر سماعت کی جو کراچی کے ضلع مغرب میں مومن آباد پولیس تھانے کے سابق سب انسپکٹر تھے۔
اکرام الدین راجپوت نے سندھ سروس ٹربیونل کے مارچ 2022 کے آرڈر کے خلاف اپیل دائر کی تھی جس نے اکرام الدین کی ملازمت کی دوبارہ بحالی کی اپیل کو مسترد کردیا تھا۔
7 سالہ بچی کے ریپ کی تفتیش کرنے والے درخواست کنندہ کو 2020 میں ملازمت سے برطرف کردیا گیا تھا جب انہوں نے ریپ کے الزام کو طبی معائنے میں ریپ کی تصدیق کے باوجود ’ریپ کی کوشش‘ کے الزام میں بدل دیا تھا۔
متاثرہ بچی کے والد نے جرم ہوتے دیکھا تھا اور پڑوسیوں کی مدد سے مجرم کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا تھا مگر اس کے باوجود ان الزامات کو تبدیل کیا گیا۔
شکایت موصول ہونے پر اس وقت کے ضلع غربی کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل نے درخواست گزار کو شوکاز نوٹس جاری کیا تھا جنہوں نے اس الزام کو ماننے سے انکار کردیا تھا، حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ درخواست گزار کو سماعت کا ذاتی موقع بھی فراہم کیا گیا۔
اکرام الدین راجپوت کو 4 اگست 2020 کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا تھا اور ان کی محکمانہ اپیل بھی مسترد کر دی گئی تھی، بعد ازاں درخواست گزار نے سندھ سروس ٹربیونل کراچی میں اپیل دائر کی تھی اور اسے بھی خارج کر دیا گیا۔
ٹربیونل کے فیصلے کے خلاف اکرام الدین راجپوت کی اپیل کو سپریم کورٹ نے بھی مسترد کر دیا کیونکہ عدالت نے فیصلے میں کوئی غیر قانونی بات نہیں پائی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ تفتیش ایک فن ہے اور اس کام میں مہارت حاصل کرنے اور دیانتداری کو یقینی بنانے کے لیے وسیع تربیت کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ تفتیش استغاثہ کے مقدمے کا ایک بنیادی راستہ ہے اور تفتیشی افسر کا مقدس فرض ہونے کے ناطے اسے بغیر کسی لاپرواہی، سستی یا لالچ کے انجام دیا جانا چاہیے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے اپنے حکم نامے میں پولیس کو منظم قوت قرار دیتے ہوئے لکھا کہ کوئی بھی شخص جو اس ادارے کا حصہ بننا چاہتا ہے اسے بے مثال، بے داغ کردار کے ساتھ انتہائی دیانتدار ہونا چاہیے۔
جج نے مشاہدہ کیا کہ افسر کے خلاف قانونی کارروائی خود واضح اور خود وضاحتی دستاویزات کی بنیاد پر کی گئی ہیں۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ یہ اعلیٰ افسران اور تھانوں کے انچارج کا فرض ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ تفتیشی افسر قانون کی پیروی کرے اور غیر جانبدارانہ اور ایماندارانہ تفتیش کرے۔
اس میں مزید بتایا گیا کہ ایک تفتیشی افسر فوجداری انصاف کے نظام میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے اور تحقیقاتی رپورٹ کے مندرجات کسی بھی مجرمانہ کیس کے نتائج پر بہت زیادہ اہمیت اور اثرات رکھتے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ناقص تفتیش انصاف کی فراہمی میں سب سے بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ناقص تفتیش کو ملزم کی مدد کرنے کے لیے جان بوجھ کر بھی کیا جاسکتا ہے یہ یا تفتیشی افسر کی نااہلی، یا غیر ہنر مندی کی وجہ سے غیر ارادی طور پر بھی ایسا ہوسکتا ہے۔
سپریم کورٹ کے اس آرڈر میں پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 166 (2) کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس کے مطابق ایسا کوئی بھی افسر جسے ایک مقدمے کی تحقیقات کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی اور وہ اپنا کام صحیح طریقے سے انجام دینے میں ناکام ہوگیا یا عدالت میں کیس کی پیروی نا کرسکا تو اسے 3 سال تک قید کی سزا یا جرمانہ کیا جائے گا۔
جبکہ انسداد دہشت گردی ایکٹ، 1997 کا سیکشن 27 یہ کہتا ہے کہ اگر انسداد دہشت گردی کی عدالت یا ہائی کورٹ اسی نتیجے پر پہنچتی ہے کہ تفتیشی افسر یا دیگر متعلقہ افسران صحیح طریقے سے تفتیش کرنے یا مناسب طریقے سے کیس کی پیروی کرنے میں ناکام رہے اور اپنے فرائض کی خلاف ورزی کی ہو تو ایسی عدالت کے لیے یہ قانونی ہو گا کہ وہ مجرم افسران کو قید کی سزا دے جو 2 سال تک ہو سکتی ہے، جرمانہ کرے یا سمری کارروائی کا سہارا لیتے ہوئے دونوں سزائیں دے۔
جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ کسی بھی مجرم کو سزا سنانے کا سب سے پہلا مقصد مجرموں کو سزا دینا ہے۔
درخواست کو مسترد کرتے ہوئے بینچ نے واضح کیا کہ عدالت کا حکم صرف محکمے کے افسر کے خلاف کی گئی تادیبی کارروائی اور ٹربیونل کے ذریعے اسے برقرار رکھنے سے متعلق ہے۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ اس فیصلے سے مومن آباد پولیس اسٹیشن میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 376 کے تحت درج ریپ کیس میں ٹرائل کورٹ کی کارروائی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، جس کا فیصلہ کیس کے میرٹ اور قانون کے مطابق کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ پاکستان پینل کوڈ کا سیکشن 376 عصمت دری سے متعلق ہے اور یہ مجرم کو سزائے موت یا جرمانے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ 25 سال قید کی سزا تجویز کرتا ہے۔