کراچی: (سچ خبریں) سندھ کے جنوبی خطے کے کاشتکاروں نے پنجاب میں چولستان کے علاقے میں مجوزہ 6 کینالز کی تعمیر کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ منصوبہ ہماری زمینوں کو بنجر بنادے گا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق کاشتکاروں کی 3 تنظیموں، سندھ آباد گار بورڈ ( ایس اے بی)، سندھ چیمبر آف ایگرکلچر (ایس سی اے) اور سندھ آبادگار اتحاد ( ایس اے آئی) کی جانب سے تشکیل دی گئی اینٹی کینالز ایکشن کمیٹی کے تحت کاشتکاروں کی جانب سے ایک ریلی کا اہتمام کیا گیا جب کہ سندھ یونائیٹڈ پارٹی کا ذیلی فورم سندھ آبادگار فورم بھی اس پلیٹ فارم کا حصہ ہے۔
مظاہرین نے کہا کہ سینٹرل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی (سی ڈی ڈبلیو پی) نے سندھ میں بسنے والے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو خطرے سے دو چار کردیا ہے۔
سندھ آباد گار بورڈ کے صدر محمود نواز شاہ نے کہا کہ ’ کاشت کار اس ملک اور سندھ کی خاطر احتجاج کر رہے ہیں، صحرائے چولستان کی زمینوں تک پانی پہنچانے کے لیے بنائی جانے والی کینالز کے پیچھے کیا حکمت ہے ؟۔
انہوں نے کہا کہ اضافی پانی کو مجوزہ کینالز کے لیے استعمال کیا جائے گا، آپ صحرا کی زمین کو پانی دیں گے اور جو زر خیز زمینیں ہیں، انہیں بنجر بنا دیں گے، اس میں کیا منطق ہے ۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ سندھ کے پانی کا مسئلہ 1935 سے نہیں بلکہ 150 سال پرانا ہے، برطانوی آبادکاروں نے بھی اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ سندھ میں کاشت کاری کے لیے پنجاب سے زیادہ رقبے پر مشتمل اراضی زیر کاشت رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سندھ کے کاشت کار کسی بھی غیرقانونی فیصلے کو تسلیم نہیں کریں گے، اس منصوبے کی منظوری وہ لوگ دیتے ہیں جو قرآن پاک پر حلف اٹھاتے ہیں کہ ہم ملک سے وفادار رہیں گے۔
سندھ چیمبر آف ایگریکلچر کے میران محمد شاہ نے وفاقی حکومت میں اہم اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری سے مطالبہ کیا کہ وہ بھی اپنی والدہ بینظیر بھٹو کی طرح کسانوں اور کاشت کاروں کے احتجاج کی قیادت کریں۔
میران شاہ کا اشارہ اگست 1998 میں اوباڑو، گھوٹکی میں کالا باغ ڈیم کی مجوزہ تعمیر کے خلاف کیے جانے والے احتجاج کی جانب تھا جس میں بینظیر بھٹو نے بھی شرکت کی تھی۔
میران محمد شاہ نے کہا کہ پانی کا مسئلہ پورے ملک کا ہے، یہ صرف سندھ یا پنجاب کا معاملہ نہیں ہے۔ انہوں نے شہروں میں بسنے والوں، بالخصوص کراچی کے شہریوں سے اپیل کی کہ معاملے کی سنجیدگی کا احساس کریں، کیونکہ زیر تعمیر کے فور منصوبے سے شہر کو پانی فراہم کیا جائے گا جو کوٹری بیراج سے چلے گا تاہم کوٹری بیراج کو پانی نہ ملا تو اس منصوبے کا مقصد پورا نہیں ہوسکے گا۔
انہوں نے کہا کہ میں پالیسی میکرز کے اس فیصلے کو سمجھنے سے قاصر ہوں، حقائق یہ ہیں کہ عام حالات میں بھی ڈاؤن اسٹریم کوٹری بیراج کی جانب پانی کا بہاؤ صفر رہتا ہے، اگر یہ کینالز تعمیر ہوجاتی ہیں تو سندھ بنجر ہوجائے گا۔
سندھ آباد گار اتحاد کے صدر زبیر تالپور نے منصوبے کی مذمت کرتے ہوئے سوال کیا کہ اگر صحرا کی نئی زمینوں پر کاشت کی جائے گی تو سندھ میں موجود زمینوں کا کیا ہوگا ؟ صوبہ سندھ کی جانب سے پہلے ہی شکایات سامنے آرہی ہیں کہ اسے 1991 کے معاہدے کے مطابق اپنے حصے کا پانی نہیں مل رہا۔
سندھ چیمبر آف ایگریکلچر کے نائب صدر نبی بخش سہتو نے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے اعداد و شمار شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ 1999 سے 2023 تک کے ان اعداد وشمار کے مطابق سندھ کو پانی کی 40 فیصد کمی کا سامنا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں پنجاب کو محض 15 فیصد پانی کم مل رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ چولستان کینالز بنانے کے بجائے دیا مر بھاشا ڈیم پر 240 ارب روپے خرچ کرے، چولستان کینالز کی تعمیر سے سندھ کی ایک کروڑ 20 لاکھ ایکڑ زرعی اراضی تباہ ہوجائے گی جب کہ چولستان کینالز منصوبے سے صحرا کی صرف 12 لاکھ ایکڑ اراضی پر کاشت کاری ممکن ہوسکے گی۔
سندھو دریا بچاؤ کمیٹی کے کنوینر سید زین شاہ نے کہا کہ جب دریائے سندھ سے پانی ان مجوزہ 6 کینالز کو فراہم کیا جانے لگے گا تو اگلے 10 سال میں سندھ سے ہجرت کا آغاز ہوجائے گا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ نئی کینالز سندھ کو تباہ کر دیں گی، اس لیے وفاقی حکومت کو چاہیے کہ دانشمندانہ فیصلہ کرتے ہوئے اس منصوبے کو ختم کردے۔
سندھ یونائیٹڈ آباد گار فورم کے بشیر شاہ نے کہا کہ صوبہ سندھ زبان، زمین اور پانی کے معاملات پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ انہوں نے صدر مملکت سے اپیل کی کہ 8 جولائی کو ہونے والے اجلاس کے فیصلے کو واپس لیا جائے۔
مظاہرے سے سید ندیم شاہ، زاہد بھرگڑی، میر ظفر اللہ، محب مری، ذوالفقار یوسفانی اور سابق ایڈووکیٹ جنرل سندھ یوسف لغاری نے بھی خطاب کیا۔ یوسف لغاری نے وکلا تنظیموں سے اپیل کی کہ ہفتہ وار کم از کم ایک دن عدالتی امور کا بائیکاٹ کیا جائے تاکہ عدلیہ بھی اس معاملے کی حساسیت کو محسوس کرسکے۔