اسلام آباد: (سچ خبریں) عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے پالیسی ساز اگلے ہفتے مراکش میں سالانہ اجلاس کے موقع پر جمع ہوں گے تو قرض لینے والے ممالک جیسا کہ پاکستان اور مصر کے مالی معاملات بھی زیر بحث آئیں گے۔
ڈان اخبار میں شائع ’غیر ملکی خبررساں اداروں‘ کی رپورٹس کے مطابق اس سالانہ اجلاس میں 190 ممالک کے وزرائے خزانہ اور مرکزی بینکوں کے نمائندے ایک ہفتے کے لیے مراکش میں جمع ہوں گے، اور عالمی معیشت کو درپیش خطرات کے بارے میں تبادلہ خیال کریں گے، جو مراکش میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے مرکز سے زیادہ دور نہیں ہے، جس کے نتیجے میں 2 ہزار 900 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
رپورٹ کے مطابق امریکی مالیاتی پالیسی اور چین کی سست ہوتی معیشت کے ساتھ ابھرتی معیشتوں کی شرح نمو کے حوالے سے غیریقینی برقرار ہے، جنہیں اب بھی سخت موسم اور موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کا سامنا ہے۔
محض ایک روز قبل آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹالینا جارجیوا نے نوٹ کیا کہ 2020 سے لگاتار دھچکوں کے سبب عالمی پیداوار 37 کھرب ڈالر کی کمی ہوئی ہے، اور حتیٰ کہ موجودہ شرح نمو بھی کورونا وبا سے پہلے کی سطح سے کافی نیچے ہے۔
لیکن انہوں نے مہنگائی پر قابو پانے کو ’اولین ترجیح‘ دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کرسٹالینا جارجیوا نے نوٹ کیا کہ اس کے لیے شرح سود کو ’طویل عرصے تک زیادہ‘ رکھنے کی ضرورت ہوگی۔
زیادہ سے زیادہ ممالک کا انحصار مالیاتی پیکیج پر ہے، آئی ایم ایف نے کورونا وبا کے بعد سے 96 ممالک کو تقریبا$ 320 ارب ڈالر کی مالی اعانت فراہم کی، عالمی مالیاتی ادارے کی سربراہ نے کہا کہ اسے اپنی قرض دینے کی صلاحیت کو بڑھانے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ اس نے ممبر ممالک پر زور دیا کہ وہ اپنے کوٹے کے وسائل کو بڑھانے کے لیے کام کریں۔
ستمبر میں جے پی مارگن کی جانب سے سرمایہ کاروں کے سروے کے مطابق ارجنٹائن، پاکستان اور کینیا ان ممالک کی فہرست میں سرفہرست ہیں، جنہیں ڈیفالٹ کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
جنوبی امریکی معیشت کے زرمبادلہ کے ذخائر منفی میں ہیں، جبکہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت قرض جاری کیا۔
فچ کے مطابق پاکستان ان تین ممالک میں شامل ہے، جس کی اگلے برس تک سود کی ادائیگیوں میں 40 فیصد یا زیادہ آمدنی خرچ ہوگی۔