اسلام آباد: (سچ خبریں) نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے غیر قانونی طور پر رہائش پذیر غیر ملکی شہریوں بشمول 17 لاکھ 30 ہزار افغان شہریوں کو ملک چھوڑنے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی ملک غیر قانونی تارکین وطن کو رہنے کی اجازت نہیں دیتا اور یہ فیصلہ عالمی طرز عمل کے عین مطابق ہے۔
خیال رہے کہ رواں ہفتے کے اوائل میں حکومت نے تمام غیر ملکی تارکین وطن بشمول افغان شہریوں کو 31 اکتوبر تک ملک چھوڑنے کا الٹی میٹم دیا ہے، ایسا نہ کرنے کی صورت میں انہیں گرفتار یا ملک سے بے دخل کر دیا جائے گا۔
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی زیر صدارت اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا، جس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر و دیگر نے بھی شرکت کی تھی۔
نگران وفاقی وزیر داخلہ نے بتایا تھا کہ 10 اکتوبر سے لے کر 31 اکتوبر تک افغان شہریوں کے لیے ای تذکرہ یا الیکٹرانک تذکرہ ہے، یہ کمپیوٹرازڈ ہو گا، کاغذی تذکرہ نہیں چلے گا، ہم 10 سے 31 اکتوبر تک اس کی اجازت دے رہے ہیں اور اس کے بعد پاسپورٹ اور ویزا پالیسی لاگو ہو گی۔
اس فیصلے پر افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے گزشتہ روز ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کا غیر قانونی افغان شہریوں کو بے دخل کرنے کا فیصلہ ’ناقابل قبول‘ ہے اور حکام پر زور دیا کہ پالیسی پر نظرثانی کریں۔
بعد ازاں، دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے ہفتہ وار پریس بریفینگ کے دوران کہا تھا کہ پاکستان، افغان مہاجرین کے خلاف نہیں بلکہ غیر قانونی مہاجرین کے خلاف ہے، پاکستان افغان مہاجرین سمیت تمام غیر قانونی رہائش پذیر باشندوں کے خلاف کارروائی کر رہا ہے، کسی خاص شہریت کے خلاف نہیں ہیں۔
ممتاز زہرہ بلوچ نے مزید بتایا کہ پاکستان اس حوالے سے افغان عبوری حکومت کے ساتھ بات چیت جاری رکھے گا، تبت میں بین الاقوامی کانفرنس کے موقع پر پاک۔ افغان وزرائے خارجہ کی ملاقات ہوگی، دوطرفہ معاملات پر خصوصی گفتگو کی جائے گی۔
تربت میں بین الاقوامی کانفرنس کے موقع پر ہانگ کانگ کے فونیکس ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی ملک غیر قانونی افراد کو اپنے ملک میں رہنے کی اجازت نہیں دیتا، چاہے وہ یورپ ایشیا کا کوئی ملک یا ہمارا پڑوسی ملک ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ لہذا ہمارا یہ فیصلہ عالمی طرز عمل کے مطابق ہے۔
جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ جب بھی کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو لوگ پاکستان ہجرت کرتے ہیں اور پاکستان میں پناہ لیتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ لیکن میرا خیال ہے کہ 40 برس سے زائد کا عرصہ ہو گیا ہے، لہٰذا حکومتِ پاکستان نے یہ فیصلہ کیا ہے، انہوں نے نوٹ کیا کہ افغانستان میں صورتحال مستحکم ہو گئی ہے۔
افغانستان میں کئی دہائیوں کی جنگ بڑی حد تک 2021 کے وسط میں ختم ہوئی، جب امریکا کی زیر قیادت غیر ملکی افواج نے انخلا کیا اور امریکی حمایت یافتہ حکومت گر گئی، جس کے بعد طالبان نے دوبارہ اقتداد سنبھالا۔
جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ پاکستان مہاجرین کے معاملے پر افغانستان کے ساتھ ’طویل عرصے سے‘ بات چیت کر رہا ہے، اور انہوں نے بین الاقوامی انسانی اداروں سے اس عمل میں مدد کا مطالبہ کیا۔
نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے بتایا تھا کہ پاکستان میں اندازاً 44 لاکھ افراد غیرقانونی طور پر مقیم افغان شہری ہیں، ان میں سے 14 لاکھ کے پاس رجسٹریشن کا ثبوت ہے، افغان سٹیزن کارڈ رکھنے والے ساڑھے 8 لاکھ افراد ہیں اور غیر رجسٹر شدہ غیر قانونی طور پر مقیم افغانی 17 لاکھ سے زائد ہیں۔
اس فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ جنوری سے اب تک ہم پر 24 خودکش حملے ہوئے ہیں، ان 24 میں سے 14 حملے افغان شہریوں نے کیے ہیں، اس میں پشاور میں پولیس لائن مسجد ہونے والا خودکش حملہ بڑا واقعہ تھا، قلعہ سیف اللہ کے مسلم باغ میں پیش آنے والے واقعے میں چھ میں سے پانچ افغانی تھے، ژوب کینٹ کے حملے میں ملوث پانچ میں سے تین افراد افغانی تھے، ہنگو میں حملہ کرنے والے کی شناخت بھی افغان شہری کے طور پر ہوئی ہے۔
امدادی حکام نے کہا کہ افغانستان پہلے ہی انسانی بحران کا سامنا کر رہا ہے اور بڑی تعداد میں افغان شہریوں کی جبری وطن واپسی سنگین مسائل کو بڑھا دے گی۔