اسلام آباد:(سچ خبریں) وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد 9 مئی کو ہونے والی توڑ پھوڑ کو الم ناک قرار دیا اور قومی سلامتی کمیٹی نے واقعات کی منصوبہ بندی کرنے اور اشتعال دلانے والوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل کی تائید کردی۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ 9 مئی کا دن ایک الم ناک دن تھا جو کہ کروڑوں پاکستانیوں نے انتہائی غم و غصے میں گزارا۔
اجلاس کے اعلامیے میں بتایا گیا کہ وزیراعظم شہبازشریف کی زیرصدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس وزیراعظم ہاﺅس میں منعقد ہوا جس میں وفاقی وزرا، چئیرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، تینوں سروسز چیفس، سلامتی سے متعلق اداروں کے سربراہان اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔
قومی سلامتی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ہم سب آج یہ بات سوچنے پر مجبور ہیں کہ وہ کونسا نظریہ تھا، کون شخص تھا یا کونسا جتھا تھا جس نے وطن کے ساتھ والہانہ محبت کو نذر آتش کردیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ جس نے بھی یہ منصوبہ بندی کی اور جتھوں کو توڑ پھوڑ پر اکسایا، جنہوں نے ان کی قیادت کی اور جنہوں نے یہ تباہ کن کارروائیاں کی وہ یقیناً دہشت گردی کے زمرے میں تو آتے ہیں لیکن پاکستان کے ازلی دشمن بھی 75 سال میں ایسے گھناؤنے کام کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے جس میں یہ جتھا کامیاب ہوا جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ چاہے وہ 65 کی جنگ ہو، ضرب عضب ہو، امن و امان قائم کرنے کا منصوبہ ہو، چاہے وہ آرمی پبلک اسکول ہو، چاہے وہ سرحدوں کو محفوظ کرنے کے لیے جامِ شہادت نوش کرتے ہوئے کروڑوں ماؤں اور بچوں کو حفاظت اور سکون مہیا کیا ان سپوتوں اور غازیوں کی بے حرمتی کی گئی۔
وزیراعظم نے کہا کہ جی ایچ کیو کی طرف رخ کیا گیا ہے، میانوالی کے ایئربیس کی طرف رخ کیا گیا، فیصل آباد میں آئی ایس آئی کے دفتر کا رخ کیا گیا، ایف سی اسکول پر تباہی کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ 75 سال میں کسی صوبے میں خواہ کتنا گھمبیر واقعہ ہوا ہو کبھی دیکھتی آنکھ نے اس طرح کی قبیح حرکت، گھناؤنی اسکیم اور دل خراش منظر نہیں دیکھا۔
انہوں نے کہا کہ ہم آج ایسے موقع پر یہاں بیٹھے ہیں کہ ہمیں اس ساری صورت حال کا جائزہ لینا ہوگا، پاکستان کے 22 کروڑ عوام اور حکومت یک جان دو قالب ہیں اور اپنی افواج کے ساتھ مکمل طور پر وابستگی کا اظہار کرتے ہیں اور اس مذموم حرکت کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے یہ تہیہ کر رکھا ہے اور اسی حوالے سے لاہور میں بھی اجلاس کیا تھا، خیبرپختونخوا کے عہدیدار بھی موجود تھے، وہاں کہا تھا کہ اس طرح کا دل خراش منظر کبھی کسی پاکستانی نے نہیں دیکھا اور یہ کن کے ساتھ کیا گیا، جو وطن کی خاطر اگلے جہان میں چلے گئے، ہم کچھ بھی کرلیں ان کا قرض ادا نہیں کر سکتے۔
انہوں نے کہا کہ دشمن نے بھی کبھی نہیں سوچا ہوگا لہٰذا لاہور میں کہا تھا کہ جنہوں نے منصوبہ بندی کی ہے، جنہوں نے ان بلاوائیوں کو اکسایا اور رہنمائی کی اور اپنے سامنے توڑ پھوڑ اور گھروں کو آگ لگائی، شہیدوں اور غازیوں کی بے حرمتی کی وہ کسی رعایت کے قابل نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کو ہر صورت قانون کے کٹہرے میں لانا ہوگا اور اگر وزیراعظم بھی کہے کہ فلاں کو چھوڑ دو تو وزیراعظم کا حکم ماننے سے انکار کردو اور بے گناہ کو کسی صورت تنگ نہیں کریں گے، وزیراعظم بھی کہے اس کو تنگ کرو تو ان کا حکم نہیں مانیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ پیمانہ دیا اور 72 گھنٹے کا باقاعدہ وقت دیا کہ اس دوران آپ سب کو گرفتار کرکے مقدمات درج کرائیں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ میں 7/7 کو لندن میں تھا، مجھے مشورہ دیا گیا کہ 24 گھنٹے میں گھر سے نہ نکلوں، جب 24 گھنٹے بعد گھر سے باہر سڑک پر نکلا تو کھوکھے پر ایک آدمی اسلامی تاریخ اور اسلامی کتابیں بیچتا تھا، میں حیران رہ گیا کہ ان کی دکان وہاں موجود تھی اور کسی نے اس کی طرف دیکھا نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ جو مجرمان تھے ان کے لیے راتوں کو بھی عدالتیں لگیں اور ان کو قرار واقعی سزائیں دی گئیں، لندن کی تاریخ میں شاید پہلا موقع ہو گا کہ رات کو عدالتیں لگیں۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اگر آج اس لمحے تاریخ، عوام اور ملک کے 22 کروڑ کے عوام کا مطالبہ ہے کہ جو بے گناہ ہیں ان کو ہاتھ نہ لگایا جائے جو کسی بھی حوالے سے گناہ گار ہیں ان کو قرار واقعی سزا ملے تو رہتی دنیا تک اس طرح کا واقعہ دوبارہ رونما نہیں ہوگا اور پاکستان کو پھر کوئی میلی آنکھ سے نہیں دیکھے گا۔
انہوں نے کہا کہ آج یہ قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس اپنی افواج پاکستان کے ساتھ بھرپور وابستگی کا اظہار کرتا ہے، ان تمام واقعات کی شدید مذمت کرتا ہے، قانون اور آئین کے مطابق قانون اپنا راستہ اپنائے گا۔
انہوں نے کہا کہ کسی کے ساتھ زیادتی اور ظلم کا سوال پیدا نہیں ہوتا مگر کسی نے جرم کیا ہے تو اس کو بچ نکلنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں قانونی، آئینی اور انتظامی حوالے سے آئندہ کے لیے ایسے انتظامات کرنے چاہئیں کہ قیامت تک اس طرح کا واقعہ دوبارہ کبھی رونما نہ ہو کیونکہ اس واقعے نے پوری دنیا میں پاکستان کو شدید نقصان پہنچایا اور کروڑوں لوگ آج بھی غصے میں اور رنجیدہ ہیں۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا کہ اجلاس نے اعادہ کیا کہ ملک میں تشدد اور شرپسندی کسی صورت برداشت نہ کرتے ہوئے ’زیروٹالرنس‘ کی پالیسی اپنائی جائے گی۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے شرکا نے 9 مئی کو قومی سطح پر یوم سیاہ کے طور پر منانے کا بھی اعلان کیا۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے شرکا نے پاکستان کی مسلح افواج کے ساتھ مکمل یک جہتی اور حمایت کا اظہار کیا۔
اس حوالے سے بتایا گیا کہ اجلاس کے شرکا نے ذاتی مفادات اور سیاسی فائدے کے حصول کے لیے جلاﺅگھیراﺅ اور فوجی تنصیبات پر حملوں کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی۔
مزید بتایا گیا کہ شرکا نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ فوجی تنصیبات اور عوامی املاک کی حرمت اور وقار کی کوئی خلاف ورزی بالکل برداشت نہیں کی جائے گی اور 9 مئی کے یوم سیاہ میں ملوث تمام عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا۔
اجلاس نے آئین کے مطابق متعلقہ قوانین بشمول پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل کے ذریعے شرپسندوں، منصوبہ سازوں، اشتعال دلانے والوں اور اُن کے سہولت کاروں کے خلاف مقدمات درج کرکے انصاف کے کٹہرے میں لانے کے فیصلے کی بھی تائید کی۔
بیان میں کہا گیا کہ فورم نے واضح کیا کہ کسی بھی ایجنڈے کے تحت فوجی تنصیبات اور مقامات پر حملہ کرنے والوں کے خلاف کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔
شرکا نے شہدا اور اُن کے اہل خانہ کو بھی زبردست خراج تحسین پیش کیا۔
اعلامیے میں بتایا گیا کہ اجلاس میں سوشل میڈیا کے قواعد وضوابط کے سختی سے نفاذ اور قواعد پر عمل درآمد یقینی بنانے کی ہدایت کی تاکہ بیرونی سرپرستی اور داخلی سہولت کاری سے کیے جانے والے پروپیگنڈے کا تدارک کیا جا سکے اور اس کا ارتکاب کرنے والے عناصر کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔
اجلاس نے عالمی سیاسی کشمکش اور دشمن قوتوں کی عدم استحکام کی پالیسیوں کی وجہ سے بڑھتے ہوئے پیچیدہ جیو اسٹریٹجک ماحول میں قومی اتحاد اور یگانگت پر زور دیا۔
قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا کہ فورم نے سیاسی اختلافات کو محاذ آرائی کے بجائے جمہوری اقدار کے مطابق مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا