اسلام آباد(سچ خبریں) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر محسن عزیز جو چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں صادق سنجرانی کے پولنگ ایجنٹ بھی تھے انہوں نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ رولز آف پروسیجر اینڈ کنڈکٹ آف بز نس ان سینیٹ 2012 کے مطابق سینیٹ اور قومی اسمبلی کی کارروائیاں قانون کی عدالت میں چیلنج نہیں کی جاسکتیں۔
سینیٹر مرزا محمد آفریدی کی ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے طور پر نامزدگی پر اندرونی اختلافات کے باوجود حکمران اتحاد حزب اختلاف کی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے امیدواروں کو شکست دینے میں کامیاب رہا اور اس نے دعویٰ کیا ہے کہ پارلیمان کے دونوں ایوانوں کی کسی کارروائی کو قانون کی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر محسن عزیز جو چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں صادق سنجرانی کے پولنگ ایجنٹ بھی تھے انہوں نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ رولز آف پروسیجر اینڈ کنڈکٹ آف بز نس ان سینیٹ 2012 کے مطابق سینیٹ اور قومی اسمبلی کی کارروائیاں قانون کی عدالت میں چیلنج نہیں کی جاسکتیں۔
انہوں نے اپوزیشن کے اس دعوے کہ پی ڈی ایم کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کے حق میں ڈالے گئے 7 ووٹ غیرقانونی مسترد کیا گیا کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن اراکین نے جان بوجھ کر اپنے ووٹس کو ضائع کیا۔
حکومتی جماعت کے رکن کا دعویٰ تھا کہ ’انہوں نے دباؤ یا کسی سمجھوتے کے تحت اپنا ووٹ ضائع کیا کیونکہ وہ پی ٹی ایم کے لیے ووٹ دینے کو تیار نہیں تھے‘، مزید یہ کہ پی ڈی ایم کے یہ ساتوں ووٹرز ڈپٹی چیئرمین کے لیے حکومتی امیدوار کی حمایت میں کھل کر سامنے آئے۔
دوسری جانب اندرونی ذرائع کا کہنا تھا کہ مرزا محمد آفریدی کی نامزدگی پر پی ٹی آئی کے حلقوں میں کچھ تحفظات تھے، تاہم بعد ازاں پارٹی قیادت کی جانب سے اس سے بہتر طریقے سے منظم کیا گیا تھا۔
پی ٹی آئی کے کچھ اعلیٰ رہنماؤں کا مؤقف تھا کہ ڈپٹی چیئرمین پنجاب سے ہونا چاہیے اور انہوں نے اس سلسلے میں پارٹی رہنماؤں اعجاز چوہدری، سیف اللہ نیازی اور عون عباس بپی کے ناموں کی تجویز دی تھی۔
واضح رہے کہ 12 مارچ کو ایوان بالا میں عددی اکثریت کے باوجود اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدواروں کو چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب پر شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے لیے ایوان بالا کے 98 اراکین نے ووٹ دیئے تھے، حکومتی اتحاد کے چیئرمین سینیٹ کے امیدوار صادق سنجرانی کو 48 ووٹ ملے تھے جبکہ ان کے مد مقابل یوسف رضا گیلانی کو 42 ووٹ ملے تھے اور ان کو ملنے والے 7 ووٹوں کو مسترد کردیا گیا جبکہ ایک ووٹ دونوں اُمیدواروں کے لیے نشان زدہ ہونے پر مسترد ہوا تھا۔
علاوہ ازیں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی نشست کے لیے حکومتی امیدوار مرزا محمد آفریدی کو 54 ووٹ ملے تھے جبکہ اپوزیشن کے عبدالغفور حیدری کو 44 ووٹ ملے تھے اور کوئی بھی ووٹ مستر نہیں ہوا تھا۔
جس پر اپوزیشن کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا تھا اور پی ڈی ایم میں شامل بڑی جماعتوں میں سے ایک پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ ’مریم نواز و دیگر پی ڈی ایم قیادت سے مشاورت کے بعد عدالت جانے کا فیصلہ کیا ہے، ہمارا موقف ہے کہ ہم چیئرمین سینیٹ کا انتخاب جیت چکے ہیں اور یہ الیکشن عوام کی آنکھوں کے سامنے چوری کیا گیا، ہمیں امید ہے کہ عدالت سے انصاف ملے گا اور ہائی کورٹ ہمارے حق میں فیصلہ دے گی، عدالت سے انصاف پر مبنی فیصلہ آیا تو وہ پی ڈی ایم اور یوسف رضا گیلانی کے حق میں ہوگا’۔
انہوں نے کہا تھا کہ ‘میں نے بھی عام انتخابات میں اپنے نام کے اوپر ایسے ہی مہر لگائی تھی، سیکریٹری سینیٹ نے ہمارے لوگوں کو بتایا کہ آپ ڈبے کے اندر کہیں بھی مہر لگا سکتے ہیں’۔