اسلام آباد(سچ خبریں) الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے حزب اختلاف کے شدید شور و شرابے میں قومی اسمبلی میں بلڈوز کیے جانے والے متنازع الیکشن ایکٹ (ترمیمی) بل پر اپنے تحفظات سے حکومت کو باضابطہ طور پر آگاہ کردیا کمیشن نے پارلیمانی امور اور قانون و انصاف کی وزارتوں کو ارسال کیے گئے الگ الگ مراسلوں میں مجموعی 72 مجوزہ ترامیم میں سے 45 کے خلاف اعتراض اٹھایا۔
حکومت کو ارسال کردہ ایک دستاویز میں اعتراض کی وجوہات میں آئین سے بغاوت کرنے والی 15 ترامیم اور ایکٹ سے متصادم 5 ترامیم کی نشاندہی کی گئی۔
انتظامی بنیادوں پر کمیشن نے مجموعی 17 ترمیم کی مخالفت کی ہے جبکہ ای سی پی نے 27 ترمیم کی حمایت کی ہے۔
ان دستاویزات کو مراسلے سے منسلک کیا گیا، جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دفعہ 17 اور دفعہ 221 میں ترمیم کرکے ‘آبادی کے بجائے ووٹروں کی بنیاد پر حلقہ بندی’ دراصل آئین کی خلاف ورزی ہے۔
اس میں بتایا گیا کہ یہ ترمیم آرٹیکل 51 (5) سے متصادم ہے جس میں آبادی کی بنیاد پر نشستیں مختص کرنے کی سہولت دی گئی ہے۔دستاویز میں واضح کہا گیا کہ ‘اس کے لیے آبادی کی بنیاد پر واضح طور پر حد بندی کی ضرورت ہے’۔
انتخابی فہرستوں کی تیاری اور اس پر نظر ثانی سے متعلق باب چہارم کے (سیکشن 24، 26، 28، 29، 30، 31، 32، 33، 34، 36، اور 44) پر بھی اعتراض کیا گیا ہے جو آئین کے آرٹیکل 219 اے اور 222 سی سے متصادم ہیں۔
آرٹیکل 219 اے کے تحت انتخابی فہرستوں کی وقتاً فوقتاً نظر ثانی کی ضرورت ہے۔آرٹیکل 222 اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ کسی بھی قانون سے کمشنر یا الیکشن کمیشن کے اختیارات چھیننے یا اس کا خاتمہ نہیں ہوگا۔
بیان میں کہا گیا کہ مذکورہ بالا حصوں کے اخراج سے انتخابی فہرستوں کی تیاری اور نظرثانی کمیشن کی طاقت ختم ہوجائے گی اور یہ اختیار نادرا کو دے دیا جائے گا جو آرٹیکل 222 کے منافی ہوگا۔
اسی طرح سیکشن 25 میں ایک مجوزہ ترمیم جس کا مقصد نادرا کو ایک نئے این آئی سی ہولڈر کو بطور ووٹر رجسٹر کرنے کا اختیار دیتا ہے، اس کی مخالفت کی گئی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 219 کے تحت رائے دہندہ کی رجسٹریشن ای سی پی کی ایک خصوصی طاقت ہے۔