اسلام آباد: (سچ خبریں) سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل اور قبل از وقت اسمبلی تحلیل کیے جانے کے بعد 90 روز کی آئینی مدت میں عام انتخابات کرانے سے متعلق دائر درخواستوں کو 23 اکتوبر بروز پیر سماعت کے لیے مقرر کردیا۔
جسٹس اعجاز الاحسن کی سر براہی میں جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل سپریم کورٹ کا لاجر بینچ فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کرےگا۔
عدالت عظمیٰ کی جانب سے جاری کردہ کاز لسٹ کے مطابق ملٹری کورٹس میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف کیس کی سماعت 23 اکتوبر بروز پیر دن ساڑھے 11 بجے شروع ہوگی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ روز ایک مختلف کیس کی سماعت کے دوران وکیل کی جانب سے 15 روز کا وقت دینے کی استدعا کرنے پر چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے آئندہ ہفتے کے دوران فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے مقدمات کی سماعت اور عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق اہم آئینی معاملات کے کیسز کو اٹھانے کا عندیہ دیا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ عدالت عظمیٰ آنے والے ہفتوں میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل اور انتخابی معاملات جیسے اہم مقدمات کی سماعت کرنا چاہتی ہے، اس لیے موجودہ کیس کو 15 روز کے لیے ملتوی کرنا مشکل ہے۔
واضح رہے کہ فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کے خلاف کیس کی آخری سماعت 3 اگست کو ہوئی تھی، جس کے دوران اُس وقت کے چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ مسلح افواج کو ’غیر آئینی اقدامات‘ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی جب کہ اس سے قبل عدالت عظمیٰ نے مقدمے کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا مسترد کردی تھی۔
کیس کی سماعت سابق چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ اے ملک پر مشتمل 6 رکنی لارجر بینچ نے کی تھی۔
چیئرمین پی ٹی آئی، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، معروف قانون دان اعتزاز احسن اور سول سائٹی کی جانب سے عام شہریوں پر مقدمات آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔
20 جون کو جواد ایس خواجہ نے اپنے وکیل ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین اور ایڈووکیٹ عزیر چغتائی کے توسط سے دائر درخواست میں استدعا کی تھی کہ عام عدالتیں ہوتے ہوئے ملٹری عدالتوں کے ذریعے عام شہریوں کا ٹرائل غیر آئینی قرار دیا جائے اور آرمی ایکٹ کے مختلف سیکشنز آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہیں، جنہیں کالعدم قرار دیا جائے۔
اس درخواست سے قبل مختلف شہروں سے سول سوسائٹی کے 5 ارکان نے اپنے وکیل فیصل صدیقی کے ذریعے 9 مئی کے تشدد کے سلسلے میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کو غیر قانونی قرار دینے کی درخواست دائر کی تھی۔
اسی طرح 18 جون کو پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر وکیل اعتزاز احسن نے 9 مئی کے واقعات میں ملوث شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
اعتزاز احسن کی جانب سے وکیل سلمان اکرم راجا نے دائر درخواست میں کہا تھا کہ وفاقی حکومت نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے کور کمانڈر فیصلے پر ربر اسٹمپ کا کردار ادا کیا، سویلین کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 اور 59 آئین سے متصادم ہیں، آرمی ایکٹ قانون کے سیکشن 2 اور 59 کو کالعدم قرار دیا جائے۔
21 جون کو سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے مقدمات چلانے کے خلاف دائر 4 درخواستوں کو سماعت کے لیے مقرر کرتے ہوئے اپنی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔
خیال رہے کہ رواں برس 9 مئی کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو پیراملٹری فورس رینجرز کی مدد سے القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار کیا، جس کے بعد ملک بھر میں ہوئے پُر تشدد احتجاج کے دوران مشتعل افراد نے فوجی تنصیبات، بشمول کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ اور پاکستان بھر میں ریاستی املاک کو نقصان پہنچایا۔
اس واقعے کے بعد، فوج نے اس دن کو ملکی تاریخ کا ایک ’سیاہ باب‘ قرار دیا تھا اور توڑ پھوڑ میں ملوث تمام افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا عزم کیا تھا۔
بعد میں مزید سخت قدم اٹھاتے ہوئے حکومت نے سول اور فوجی تنصیبات پر حملے اور آتش زنی کرنے والوں کو پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ سمیت متعلقہ قوانین کے تحت انصاف کے کٹہرے میں لانے کا فیصلہ کیا۔
اس فیصلے کی قومی سلامتی کمیٹی نے بھی توثیق کی تھی، جو قومی سلامتی کے امور کے لیے ملک کا اعلیٰ ترین فورم برائے رابطہ کاری ہے۔
بعد ازاں 20 مئی کو آرمی چیف نے کہا تھا کہ مئی کے سانحے میں ملوث منصوبہ سازوں، اکسانے والوں، حوصلہ افزائی کرنے والوں اور مجرموں کے خلاف مقدمے کا قانونی عمل آئین سے ماخوذ موجودہ اور قائم شدہ قانونی طریقہ کار کے مطابق پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت شروع ہو گیا ہے۔
خیال رہے کہ 26 مئی کو ایک نیوز کانفرنس میں اُس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا تھا کہ 9 مئی سے متعلق صرف 6 مقدمات میں 33 ملزمان کو فوجی حکام کے حوالے کیا گیا ہے۔
بعد ازاں، اس وقت کے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا تھا کہ فوج کے قوانین کے تحت مقدمات بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تقاضوں کو پورا کرتے ہیں، جو منصفانہ ٹرائل کی بنیاد ہیں۔
اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے ملک میں عام انتخابات 90 روز میں کرانے کے لیے درخواستیں بھی سماعت کے لیے مقرر کر دیں۔
چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل تین رکنی بینچ 23 اکتوبر بروز پیر درخواستوں پر سماعت کرے گا۔
یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے قومی اسمبلی تحلیل کیے جانے کے 90 روز کے اندر عام انتخابات کرانے کی تاریخ کے لیے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی تھیں۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد شاہد زبیری نے آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر درخواست میں عام انتخابات 90 روز میں کرانے اور نئی حلقہ بندیوں کے تحت انتخابات کرانےکا مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کا فیصلہ بھی چیلنج کیا تھا۔
سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلےکی روشنی میں جاری نوٹی فکیشن غیر قانونی قرار دیا جائے، مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں خیبرپختونخوا (کے پی) اور پنجاب کے نگران وزرائے اعلیٰ شریک تھے اور اس طرح مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل آئینی نہیں تھی۔
انہوں نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کا کورم ہی پورا نہیں ہوا، کونسل کی تشکیل اور کورم پورا نہیں ہو تو اس کے فیصلوں پر عمل در آمد کیسے ممکن ہوگا۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل نئی مردم شماری کے تحت انتخابات کرانے کے لیے متعلقہ فورم نہیں بنتا تھا، آئین کا آرٹیکل 224 کی شق 2 الیکشن کمیشن کو انتخابات 90 دنوں کے اندر کرانے کا پابند کرتی ہے۔
سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن نے استدعا کی ہے کہ عدالت قرار دے کہ الیکشن کمیشن کسی صورت انتخابات 90 دنوں سے آگے نہیں بڑھا سکتا، الیکشن کمیشن کے پاس کوئی آئینی اختیار نہیں کہ وہ نئی حلقہ بندیوں کی بنیاد پر انتخابات میں تاخیر کرے۔
سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں وفاق، مشترکہ مفادات کونسل، چاروں صوبوں اور الیکشن کمیشن کو فریق بنایا گیا ہے۔
29 اگست کو جماعت اسلامی نے اپنے وکیل غلام محی الدین ملک کے توسط سے آئین کے آرٹیکل 224 (2) کے تحت 90 روز کے اندر عام انتخابات کرانے کی درخواست دائر کی تھی۔
درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ عدالت عظمیٰ، الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 57 (2) کے مطابق الیکشن کمیشن کو فوری طور پر الیکشن شیڈول کا نوٹی فکیشن جاری کرنے کی ہدایت جاری کرے۔
اس میں مزید استدعا کی گئی تھی کہ سپریم کورٹ کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 218 (3) کے تحت مقررہ مدت کے اندر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرانے کے لیے الیکشن کمیشن کے فرائض کی انجام دہی کے سلسلے میں ایگزیکٹو اتھارٹیز کو مدد اور تعاون کا حکم دیا جانا چاہیے۔
جماعت اسلامی کی جانب سے درخواست دائر کرنے سے 2 روز قبل پی ٹی آئی کی جانب سے اسی طرح کی ایک درخواست پارٹی کے سیکریٹری جنرل عمر ایوب خان نے دائر کی تھی۔
درخواست میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی تھی کہ وہ الیکشن کمیشن کو الیکشن شیڈول جاری کرنے کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ سندھ، بلوچستان، پنجاب اور خیبر پختونخوا کے گورنرز کو بھی ہدایت جاری کرے کہ وہ پنجاب اسمبلی الیکشن کیس کےعدالتی فیصلے کے مطابق متعلقہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90 روز کے اندر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں۔
ایڈووکیٹ سید علی ظفر کے توسط سے دائر درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کی جانب سے 5 اگست کو ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج کی منظوری کے فیصلے کو جس کے تحت نئی حد بندیوں کو لازمی قرار دیا گیا تھا، غیر قانونی، خلاف قانون قرار دے کر کالعدم کرے۔
اس کے علاوہ پاکستان شماریات بیورو کی جانب سے 8 اگست کو جاری کردہ نوٹی فکیشن کو بھی غیر قانونی قرار دیا جائے جس میں 2023 کی مردم شماری کو پبلک کیا گیا تھا۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ آئین کے تحت بروقت انتخابات عوامی اہمیت کے حامل اور بنیادی حقوق میں شامل ہیں۔