اسلام آباد(سچ خبریں)صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے وسیع اختیارات کو ختم کرنے کے حوالے سے قومی احتساب (ترمیمی) بل 2022 بغیر دستخط وزیر اعظم آفس واپس بھجوا دیا۔
ایوان صدر کے پریس ونگ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ ان کے خیال میں پارلیمنٹ سے منظور شدہ یہ بل رجعت پسندانہ نوعیت کا ہے جس سے قانون کے لمبے ہاتھوں کو مفلوج کرکے بدعنوانی کو فروغ حاصل ہوگا۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے انتخابی ترمیمی بل بھی دستخط کرنے سے انکار کے بعد واپس بھیج دیا تھا۔
پچھلے مہینے قومی اسمبلی اور سینیٹ نے اس بل کے علاوہ نیب ترمیمی بل کو بھی منظور کیا تھا، دونوں ایوانوں سے بل کی منظوری کے بعد اسے قانون بننے کے لیے صرف صدر کی رضامندی کی ضرورت تھی تاہم عارف علوی نے بلز کو واپس کر دیا تھا۔
اس کے بعد حکومت نے 9 جون کو پارلیمنٹ ہاؤس میں ایوان بالا اور ایوان زیریں کے مشترکہ اجلاس میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2022 اور نیب آرڈیننس 1999 ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کر لیے تھے۔
مشترکہ اجلاس میں بل منظور ہونے کے بعد ایک بار پھر صدر مملکت کو منظوری کے لیے پیش کیا گیا تھا، اگر صدر مملکت 10 دن میں اس بل کو منظور نہیں کرتے تو اسے منظور تصور کیا جائے گا، اس کے باوجود آج عارف علوی نے غیر دستخط شدہ بل واپس بھیج دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ صدر پاکستان کے بل پر دستخط نہ کرنے کے باوجود یہ بل قانون کی حیثیت اختیار کر لے گا۔
صدر مملکت کا کہنا تھا کہ جنہوں نے بے تحاشہ دولت اکٹھی کر رکھی ہے، یہ بل ان بدعنوان عناصر کے بارے میں واضح پیغام ہے کہ وہ کسی کو بھی جوابدہ نہیں اور بلاخوف و خطر اپنی لوٹ مار جاری رکھ سکتے ہیں جن کے بارے میں پاکستانی عوام میں کوئی دو رائے نہیں پائی جاتی۔
صدر مملکت نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کمزور آدمی معمولی جرائم میں بھی پکڑا جائے گا جبکہ بااثر بدعنوان عناصر کو قوم کا خون چوسنے کے مکروہ عمل کی کھلی آزادی مل جائے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ احتساب کے عمل کو کمزور کرنا نہ صرف خلافِ آئین ہے بلکہ پہلے سے مسائل زدہ پاکستانی عوام کے بنیادی حقوق کے بھی خلاف ہے۔
بل پر دستخط نہ کرنے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے عارف علوی کا کہنا تھا کہ دنیا بھر کے ممالک وائٹ کالر کرائم پر قابو پانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی عناصر کا کالا دھن، جو کہ ٹیکس چوری، جرائم اور بدعنوانی کے دیگر ذرائع سے حاصل کیا جاتا ہے، کوئی ایسا نشان نہیں چھوڑتا کہ جس کا کھوج لگایا جاسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایف اے ٹی ایف بھی ایک ایسی ہی مثال ہے جو کہ منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے دہائیوں سے کام کر رہا ہے۔
صدر مملکت کا کہنا تھا کہ ہمیں ایسے معاملات پر اسلامی فقہ سے بھی ہدایت لینی چاہیے۔
انہوں نے خلیفہ ثانی حضرت عمرؓ کے ایک واقعے کا حوالہ دیا کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے اپنی چادر کے لیے کپڑے کے دو ٹکڑے کیسے حاصل کیے جبکہ سب کے حصے میں ایک ٹکڑا آیا تھا، چونکہ حضرت عمر کے پاس وہ کپڑا موجود تھا تو انہوں نے اس کے ماخذ کی وضاحت کی۔
ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ یہ واقعہ احتساب کے دو بنیادی اصولوں کا تعین کرتا ہے، اول یہ کہ استغاثہ یا الزام لگانے والے کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اس بات کو ثابت کرے کہ اس معاملے میں کپڑے کا ایک اضافی ٹکڑا اس شخص (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) کے پاس موجود ہے، دوم یہ کہ دولت حاصل کرنے کے ذرائع کے بارے میں ثبوت فراہم کرنا ملزم کی ذمہ داری ہے۔
صدر مملکت نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ انصاف کا بنیادی اصول ہے کہ فردِ جرم ثابت ہونے تک ملزم کو بے گناہ تصور کیا جاتا ہے ماسوائے یہ کہ ملزم کو ذرائع آمدن کے بارے میں ثبوت پیش کرنا ہوتے ہیں، مثال کے طور پر اس نے کپڑے کا اضافی ٹکڑا، یا جائیداد، یا دولت کہاں سے اور کیسے حاصل کی؟ یہ ایسا ہی ہے کہ جب جرم کا کوئی آلہ مثال کے طور پر، ملزم کے قبضے سے بندوق ملتی ہے، تو اسے یہ بتانا ہوتا ہے کہ اس نے یہ بندوق کیسے حاصل کی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہی اصول نیب آرڈیننس میں بھی موجود تھا کہ دولت کی ملکیت ثابت کرنا استغاثہ کی جبکہ دولت کے ذرائع ثابت کرنا ملزم کی ذمہ داری تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ نامعلوم ذرائع سے دولت کا حصول پاکستان میں ایک جرم تھا مگر ان ترامیم سے اس تصور کو کمزور کر کے اسے کافی حد تک غیر مؤثر بنا دیا گیا ہے۔
صدر مملکت نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ نے بھی اس عام تاثر کی عکاسی کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے نیب آرڈیننس کے نفاذ میں خامیاں موجود ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ قانون بھی دیگر قوانین کی طرح انتظامیہ کو اختیار دیتا ہے کہ اس کا استعمال طاقتور عناصر کے سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے کیا جاسکے، اس کے ساتھ ساتھ ذاتی مفادات کی وجہ سے پاکستان میں احتساب کا عمل کافی حد تک غیر موثر ہوا، ایک طرف جب عوام کی جانب سے لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کا تقاضہ کیا جاتا رہا تو دوسری طرف طویل عدالتی کاروائیوں اور غیر مؤثر استغاثہ نے بدعنوانی کو بے نقاب کرنا، روکنا اور ختم کرنا بہت مشکل بنا دیا۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ ہمیں گزشتہ چند دہائیوں کے تجربات کی روشنی میں ان قوانین میں موجود واضح سقم دور کرنے، انصاف کی فراہمی مؤثر بنانے کیلئے ترامیم لانی چاہیے تھی۔
انہوں نے کہا کہ اس بات کی ہرگز توقع نہ تھی کہ پچھلی حکومتوں کی کاوشوں پر پانی پھیر دیا جائے گا اور احتساب کے عمل کو ناقابل یقین حد تک کمزور بنادیا جائے گا۔
صدر مملکت نے کہا کہ یہ ایک افسوسناک امر ہے کہ ادارے کے بنیادی ڈھانچے میں بہتری لانے کی بجائے بغیر کسی متبادل نظام کے احتساب کے عمل کو زمین بوس کرنا ، احتساب کے عمل کو غیر مؤثر بنانے اور استحصالی اداروں اور نظام کو فروغ دینے کے مترادف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے کمزور قوانین انصاف کے لبادے میں بدعنوان اشرافیہ کے جرائم پر پردہ ڈالتے ہیں جو اقوام ایسے قوانین اپناتی ہیں وہ نہ صرف عام آدمی کے استحصال کا موجب بنتی ہیں بلکہ معاشرے میں ناانصافی کے فروغ کا بھی باعث بنتی ہیں۔
صدر مملکت نے اس امر کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ذاتی طور پر پاکستان کے آئین کی تقلید اور پاسداری کرتے ہیں اور اس بات پر زور دیا کہ ہمیں قرآن و سنت کے احکامات پر عمل کرنا چاہیے۔