اسلام آباد: (سچ خبریں) اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے بغاوت اور عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے کے مقدمے میں رہنما پی ٹی آئی شہباز گِل کا مزید 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔
پیر کے روز شہبازگل کو سخت سیکیورٹی میں پمز ہسپتال سے اسلام آباد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ لایاگیا، اس موقع پر اسلام آباد کچہری میں سیکیورٹی ہائی الرٹ کردی گئی، اسلام آباد پولیس اور ایف سی کے اہلکاروں کی بھاری نفری کچہری میں موجود تھی۔
عدالتی حکم کے مطابق ڈیوٹی مجسٹریٹ ملک امان کی عدالت میں شہبازگل کی میڈیکل رپورٹ پیش کی گئی، شہباز گل سے 5 وکالت نامے دستخط کروائیے گئے۔
جج نے تفتیشی سے استفسار کیا کہ فائل کدھر ہے ، اگر آپ راستہ نہیں دیں گے تو تفتیشی کیسے فائل پہنچائے گا، جج نے شہباز گل کے وکیل سے استفسار کیا آپ کیا ملزم کی طرف سے ہے.
اس موقع پر عدالت نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ ملزم ہے، فائل نہیں ہے، اسے کون لے کر آیا ہے جس پر وکیل شہباز گل نے کہا کہ ریکارڈ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہے، وہاں پر فیصلہ محفوظ ہوا ہے، ہماری استدعا ہے کہ کیس کی سماعت میں وقفہ کیا جائے۔
اس موقعے پر عدالت میں موجود شہباز گل بھی بول پڑے، انہوں نے کہا کہ ایس پی نوشیروان مجھے لےکر آیا ہے، کہا آپ کی ضمانت ہو گئی، مجھے اسکرین شارٹ دکھایا گیا اور کہا گیا کہ ضمانت ہو گئی، مچلکے جمع کرانے ہے، پرائیوٹ گاڑی میں مجھے بٹھایا گیا اور ادھر لے آئے۔
شہباز گل نے کہا کہ گزشتہ رات سے دیکھیں، میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے، جج نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ نے ڈاکٹرز کو دکھایا، ہم تو میڈیکل نہیں بتا سکتے۔
شہباز گل نے کہا کہ کل رات سے میں بھوک ہڑتال پر ہوں، مجھ سے کسی کو نہیں ملنے دیا جا رہا، کل رات 12 بندے میرے کمرے میں آئے، مجھے پکڑا اور زبردستی کیلا اور جوس پلایا۔
شہباز گل نے بتایا کہ رات 3 بجے پھر 6 سے 7 لوگ آئے، مجھے کھانا کھانے کی کوشش کی گئی، مجھے زبردستی باندھ کر دس 12 بندوں نے شیو کی، میں مونچھے نہیں رکھتا، مونچھے چھوڑ دی گئیں، مجھے زبردستی ناشتہ دینے کی کوشش کی گئی، جج نے ریمارکس دیے کہ اس کا یہ مطلب تو نہیں آپ بھوک ہڑتال پر چلے جائیں۔
وکلا نے کہا کہ ہائیکورٹ نے حکم دیا کہ وکلا سے ملنے کی اجازت دی جائے لیکن نہیں ملنے دیا جا رہا، جج نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم نامہ کدھر ہے، اس کو دیکھ کر حکم دوں گا، آپ کہہ رہے ہیں تشدد ہے، اس کو ہتھکڑی نہیں لگائی، پولیس والے اس کے ساتھ نہیں ہیں۔
جج نے ریمارکس دیے کہ یہ اچھی بات ہے کہ اس کی صحت اچھی ہو گئی ہے، شہباز گل کو کمرہ عدالت میں بیٹھا دیا جائے۔
اس دوران شہباز گل کے وکلا کے آنے تک سماعت میں وقفہ کر دیا گیا۔
جج نے نائب کورٹ سے استفسارکیا کہ اس کیس کی فائل کدھر ہے، نائب کورٹ نے بتایاکہ وہ ہائیکورٹ میں ہے ریکارڈ بھی ادھر ہی ہے، جس پر جج نے ریمارکس دیے کہ بغیر ریکارڈ کے ملزم کا میں نے کیا کرنا ہے، نہ مجھے ملزم کو دیکھنا ہے نہ اس نے مجھے دیکھنا ہے۔
جج نے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کیا سمجھتے ہیں فائل آنے تک ملتوی کر دیں؟
وکیل فیصر جدون نے کہا کہ 2 بجے تک انتظار میں رکھ لیں، ہائی کورٹ سے کہا گیا 2 بجے فیصلہ آئے گا، جج نے استفسار کیا کہ کیس کی فائل کدھر ہے، وکیل فیصر جدون نے کہا کہ فائل جج صاحب کے چیمبر میں ہے اور انہوں نے فیصلہ سنانا ہے، جج نے کہا کہ بےشک ملزم کو نہ لیکر آئیں سماعت ڈیڑھ بجے کرتے ہیں۔
جج نے ریمارکس دیے کہ اتنا رش لگا ہوا ہے، جگہ بھی تھوڑی ہے، وکلا نے کہا کہ ہائی کورٹ کا حکم آنے تک آپ شہباز گل کو جیل بھیج دیں، پمز ہسپتال سے ملزم ڈسچارج ہو چکا ہے جس پر جج نے پولیس کو ہدایت کی کہ آپ ڈیڑھ بجے تک آجائیں، ملزم کو یہاں سے لے جائیں۔
اس دوران اسلام آباد کچہری میں پولیس اور میڈیا نمائندوں کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہوئی۔
بعد ازاں، شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ پر سماعت شروع ہوئی، ڈاکٹر بابر اعوان اور فیصل چوہدری بھی جوڈیشل مجسٹریٹ ملک امان کی عدالت میں پہنچ گئے۔
وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ ابھی فیصلہ محفوظ ہے، اس لیے ہم ادھر پیش ہوئے ہیں، ملزم عدالت کا پسندیدہ بچہ ہوتا ہے، پولیس جسمانی ریمانڈ تشدد کے لیے مانگ رہی ہے۔
جج نے ریمارکس دیے کہ میں تو ابھی فائل دیکھ کر ہی فیصلہ کروں گا، شہباز گل کے وکیل نے کہا کہ آپ کے پاس فائل نہیں آئے گی۔
جج نے کہا کہ تفتیشی بتا رہے ہیں، وہ ہائیکورٹ میں ہے اور ریکارد بھی ادھر ہی ہے۔
وکیل بابر اعوان نے کہا کہ ہائی کورٹ نے کوئی ریکارڈ تفتیش کا نہیں رکھا، ہائی کورٹ میں صرف رٹ کی درخواست تھی، میں کچھ نئے حقائق سامنے لانا چاہتا ہو، جب تک ریکارڈ نہیں آتا ملزم کو عدالت پیش کرایا جائے، ہم نے ملاقات کرنی ہے جس پر جج نے ریمارکس دیے کہ صبح جب پیش ہوا تو آپ کے وکلا نے ملاقات کر لی تھی۔
وکیل بابر اعوان نے کہا کہ ہم نے بھی بات کرنی ہے، ملاقات کرنی ہے۔
اسپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی عدالت پیش نہ ہوئے
بابر اعوان اور فیصل چوھدری عدالت میں پیش
پراسیکیوٹر کی جگہ فواد حیدر اور یاسر عزیز ملک عدالت میں پیش
جج نے ریمارکس دیے کہ فائل سامنے ہو گی تو پھر معلوم ہو گا کہ پولیس کی استدعا کیا ہے، اس دوران عدالت نے نائب کورٹ کو ملزم کو پیش کرنیکا حکم دیا۔
جج نےاستفسار کیا کہ اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر راجا رضوان عباسی کدھر ہیں، کون بات کریگا، وکیل فواد حیدر نے عدالت کوبتایا وہ نہیں ہیں، ان کی جگہ میں دلائل دوں گا۔
جج نے وکیل فیصل چوھدری سے مکالمہ کیا کہ اس کیس کی تھوڑی سی ہسٹری مجھے بتا دیں کیا ہوا تھا جس پر ملزم شہباز گل کے وکیل نے مقدمہ کے حوالے سے عدالت کو آگاہ کرنا شروع کر دیا، دوران سماعت کمرہ عدالت میں بجلی چلی گئی، کمرہ عدالت تاریکی میں ڈوب گیا، موبائل فون کی لائٹس لگا کر فیصل چوھدری نے دلائل دیے۔
وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ مقدمہ درج کرنے کے لیے 3 مقامات سے اسکرپٹ اٹھایا گیا، 2 دن شہباز گل تفتیش پر رہا، 11 اگست کو مزید ایک مقدمہ 694 نمبر درج کیا گیا، اس مقدمہ میں موبائل فون کا ذکر ہے، چھاپہ مارا گیا، ڈرائیور اظہار کی اہلیہ کو اٹھایا گیا۔
وکیل نے کہا کہ پندرہ دن ہو گے مقدمہ درج ہوئے ابھی تک عبوری چالان بھی نہیں آیا، ملزم شہباز گل پہلے دن سے انکے قبضہ میں ہے، خاردار تارے لگا کر اسپتال میں پولیس کھڑی کر دی، پمز اسپتال کے اندر ویڈیو بنتی رہی، شہباز گل نے بیان دیا کہ برہنہ کر تشدد کیا گیا۔
اس دوران اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر راجا رضوان عباسی بھی عدالت میں پہنچ گئے، جج نے استفسارکیا کہ یہ ساری چیزیں آپ ہائیکورٹ کے سامنے نہیں لے کر آئے، وکیل نے کہا کہ جی بالکل ہائیکورٹ کے سامنے سب کچھ لیکر آگئے ہیں۔
راجہا رضوان عباسی نے دیتے ہوئے کہا کہ یہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا ہے اسلام آباد ہائیکورٹ میں فیصلہ محفوظ ہے۔
بابر اعوان نے استدعا کی کہ ہماری استدعا ہے کہ ملزم سے ملاقات کرائی جائے۔
جج نے پراسیکیوٹرسے استفسار کیا کہ کہ کیا ہائیکورٹ سے کوئی فیصلہ آگیا ہے جس پر پراسیکیوٹر نے بتایا کہ نہیں ابھی تک کوئی حکم نامہ نہیں ملا۔
وکیل بابراعوان نے کہا کہ 13 دن سے شہبازگل سے اسلام آباد پولیس کی حراست میں ہے، معلوم نہیں کہ شہبازگل کو ان تیرا روز میں کہاں رکھاگیا، یہ تیسرا راؤنڈ شروع ہوگیاہے ریمانڈ کا،14 دن کیا کوئی کم ریمانڈ ہوتاہے؟ جان لینی ہے کیا؟
وکیل بابراعوان نے کہا کہ گاڑی کے شیشے توڑ کر شہبازگل کو گرفتار کیاگیا، شہبازگل نے لینڈ لائن کے ذریعے بیپر دیا، اس میں کوئی شک نہیں، شہبازگل کو 14 دنوں میں ٹارچر کیاگیا، وڈیو لیک کی گئی، شہبازگل پروفیسر ہے، امریکا کا رہائشی ہے، اہلیہ بھی پروفیسر ہیں۔
وکیل بابراعوان نے کہا کہ شہبازگل سے آخر ریکور کرنا کیاہے؟ جیسے لوگوں کو اعتکاف میں چھپا کر لایاجاتا ہے، ویسے شہبازگل کو عدالت لےکر ائے، آئین کہتاہےکہ ملزم کو پکڑو ، تفتیش کرو اور عدالت جو فیصلہ کرے اسے مانو۔
وکیل بابراعوان نے مؤقف اپنایا کہ شہباز گل کو برہنہ کیاگیا، اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہتا، آرمی پبلک اسکول میں پکڑے جانے والے ملزمان کا کیا ڈھائی ماہ ریمانڈ ہوا؟
پی ٹی آئی لیگل ٹیم نے شہبازگل کی اڈیالہ جیل میں لی گئی میڈیکل رپورٹ عدالت میں پیش کردی۔
وکیل بابراعوان نے کہا کہ ڈائری میں پولیس کیا لکھےگی؟ ڈنڈا مارا؟ لیتر مارا؟ موبائل فون پر پرچہ کردیاگیا، نمبر معلوم ہے کہاں سے بیپر ہوا۔
وکیل بابراعوان نے کہا کہ ریکارڈ آرہا ہے ، جارہاہے، ملزم آرہاہے، جارہاہے، کیاسیشن جج ریمانڈ دے سکتاہے؟ جواب ہے نہیں،سپریم کورٹ کے مطابق جیل سے بہتر ضمانت ہے، شہبازگل کو ریمانڈ میں مارنے کے علاوہ اور کیا کیا جاسکتا ہے؟
وکیل بابراعوان نے دلائل دیے کہ شہبازگل مخبر نہیں ، کسی کو پکڑوانے میں مدد نہیں کرسکتے ،14 دن ریمانڈ کے مکمل ہو نے پر کیس آپ کے پاس آیاہے، شہبازگل کے وکیل بابراعوان نے دلائل مکمل کرلیے۔
اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اسپیشل پروسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے ایڈیشنل سیشن جج فرخ علی خان کا آرڈر پڑھ کر سنایا، 2 دن پمز ہسپتال میں رہنے کے دوران 2 روزہ جسمانی ریمانڈ ختم نہیں کیا جاسکتا۔
اسپیشل پروسیکیوٹر رضوان عباسی نے کہا کہ میں جسمانی ٹارچرکو سپورٹ کرنےوالا نہیں، جسمانی ریمانڈ کی شروعات تب ہوگی جب عدالت حکم جاری کرےگی،سپیشل پبلک پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی کے دلائل مکمل ہوگئے۔
اس کے ساتھ ہی عدالت نے جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
اس دوران عدالت نے ملزم شہبازگل کو لانے کا حکم دےدیا، عدالتی حکم پر شہباز گل کو کمرہ عدالت میں پہنچا دیا گیا، شہباز گل نے روسٹرم پر بولنا شروع کردیا، انہوں نے کہا کہ گزشتہ 5 روز سے کپڑے نہیں دئیے گئے، پانچ دنوں سے میں نہایا نہیں ہوں۔
شہبازگل نے کہا کہ زبردستی میری شیو کی گئی، انہیں معلوم نہیں تھا میں کلین شیون ہوں،میرے چہرے پر بال پڑے ہوئےہیں ، مجھے اگر کسی ایسی جگہ رکھا جائے جہاں ٹارچر نہیں کیاجاتا تو میں تیار ہوں، جیل میں بھیجا جائے، میں وہاں تفتیش میں تعاون کرنے کے لیے تیار ہوں، آپ کی سوچ ہےجو پولیس کررہی ہے ، ہسپتال میں بھی مجھ سے تفتیش ہوتی رہی۔
شہبازگل نے کہا کہ مجھے آپ مرنے کے لیے ان کے حوالے کریں گے، تواس کے بعد آپ کے سامنے پیش نہیں ہوں گا، میں دمہ کا مریض ہوں، شدید اٹیک ہوا تھا اس سے صحتیاب ہوا ہوں، میں نے کبھی نہیں کہا کہ مرنے لگا ہوں ،آپ کویہ سوچنا ہے کہ مجھے زندہ دیکھنا ہے یا مردہ،
شہباز گل نے کہا کہ میرے گھر سے کپڑے دیکر گئے، انہوں چھین لیے، گزشتہ 4 روز سے میں بھوک ہڑتال پر ہوں، عدالت نے شہباز گل کو لے جانے کا حکم دے دیا۔
اس دوران عدالت نے محفوظ فیصلہ سناتے شہباز گل کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا گیا۔