اسلام آباد: (سچ خبریں) وزیر مملکت مصدق ملک نے گیس کی قیمتوں میں اضافے کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک نے ترقی کرنا ہے تو گیس کی قیمتیں ہر صورت بڑھنی چاہیے۔
سینیٹ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے مصدق ملک کا کہنا تھا کہ گیس کی قیمتیں ہر صورت بڑھانی چاہئیں، مہنگائی کو سامنے رکھتے ہوئے عوام پر بوجھ نہیں ڈالا گیا، مگر یہ بوجھ قومی خزانے پر آ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 1600 ایم ایم سی ایف ڈی گیس پیدا ہو رہی ہے، صرف سوئی نادرن گیس پائپ لائن لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) کو چولہے جلانے کے لیے 1400 ایم ایم سی ایف ڈی گیس چاہیے، گیس کے اضافی کنکشن ایل این جی پر دے سکتے ہیں جو بہت مہنگی ہے۔
مصدق ملک نے کہا کہ گیس کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے کابینہ اراکین سے مشاورت جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹراتھارٹی (اوگرا) کی تجویز ہے کہ قومی خزانے پر مزید بوجھ نہیں ڈالا جاسکتا۔
انہوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے دور اقتدار میں اوگرا کے قانون کو تبدیل کیا گیا جو نہیں بدلنا چاہیے تھا۔
خیال رہے کہ 11 جنوری 2023 کو اوگرا نے سوئی سدرن اور سوئی ناردرن گیس کمپنیوں کو گیس کی قیمتوں میں بالترتیب 74.42 اور 75.35 فیصد اضافے کی منظوری دی تھی۔
دونوں کمپنیوں نے اوگرا سے قیمت میں اضافے کی درخواست کی تھی جس کا اطلاق جولائی 2022 سے ہوگا، اس سلسلے میں سوئی ناردرن نے 1294.02 روپے اور سوئی سدرن نے 667.44 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو اضافے کی درخواست کی تھی۔
قیمتوں میں اضافے کا یہ فیصلہ وفاقی حکومت کو ارسال کردیا گیا تھا جو آئندہ 40 دن میں اس حوالے سے ریگولیٹری ادارے کو گیس کے کم از کم نرخوں اور ہر کیٹیگری کے ریٹیل صارفین کے لیے گیس کی قیمت کے حوالے سے سفارشات دینے کی پابند ہے۔
اگر وفاقی حکومت آئندہ 40 دن میں سفارشات پیش نہیں کرتی تو اوگرا نے گیس کے جن نرخوں کا تعین کیا ہے اس کا نوٹی فکیشن جاری کردیا جائے گا۔
اوگرا نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ وفاقی حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ گیس کی فروخت کی قیمت اوگرا کی جانب سے متعین کردہ کمپنیوں کی مالی ضروریات سے کم نہ ہو۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والی آزاد سینیٹر نسیمہ احسان نے سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم سمجھتے تھے کہ بلوچستان میں نیوی یا اور کوئی ادارہ آئے گا تو ہم خود کو محفوظ سمجھیں گے اور صوبے کی ترقی ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ لیکن اب ایسے حالات ہیں کہ بلوچستان کے غریب عوام کی زمینوں پر نیوی قابض ہے، ہماری بلوچستان کے عوم سے بات ہوئی ہے، ان زمینوں میں سفید پوش لوگوں کی بھی زمینیں ہیں۔
سینیٹر نسیمہ احسان نے کہا کہ انہوں نے سمجھا کہ ہم بات کرکے مسئلہ حل کرالیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا، وہاں کے لوگ احتجاج کرنے کو تیار ہیں، وہ کہتے ہیں اب ہم نیوی کے خلاف احتجاج کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ عوام کی شکایات سنی جائیں، نیوی کی جانب سے زمین پر قبضے کا معاملہ کمیٹی کے سپرد کیا جائے، چیئرمین سینیٹ نے نیوی کی جانب سے زمینوں پر قبضوں کا معاملہ متعلقہ کمیٹی کو بھیج دیا۔
اس کے علاوہ سینیٹ اجلاس میں گزشتہ 3 سالوں کے دوران وزیر اعظم آفس کیلئے مختص اور استعمال فنڈز کی تفصیلات ایوان بالا میں پیش کی گئیں
دستاویزات کے مطابق وزیر اعظم آفس کیلئے ایک ارب 17 کروڑ روپے بجٹ مختص کیا گیا اور وزیر اعظم آفس کے اخراجات 90کروڑ روپے سے زائد رہے۔
ڈان کے پاس موجود دستاویزات کے مطابق وزیراعظم آفس کے لیے سنہ 20-2019 کے دوران 38 کروڑ 80 لاکھ روپے بجٹ مختص کیا گیا جبکہ 31 کروڑ 50 لاکھ روپے استعمال ہوا۔
اس کے علاوہ سنہ 21-2020 میں 38 کروڑ 90 لاکھ روپے مختص تھے جبکہ 30 کروڑ استعمال ہوئے اور سنہ 22-2021 کے دوران 40 کروڑ 10 لاکھ روپے مختص تھے جبکہ 38 کروڑ 40 لاکھ روپے استعمال ہوئے۔