اسلام آباد: (سچ خبریں) اسلام آباد میں قائم ریسرچ ہاؤس کی ایک رپورٹ کے مطابق حالیہ سیلاب نے پاکستان کے ٹیلی کمیونیکیشن کے بنیادی انفرا اسٹرکچر کی کمزوریوں کو بے نقاب کر دیا ہے جس کے تحت تمام موبائل نیٹ ورکس کام کرتے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق نائحہ راشد، مائرہ شیخ اور علینہ خان کی مرتب کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فوری اقدامات نہ اُٹھائے جانے کی صورت میں ٹیلی کام انڈسٹری تباہ ہونے کا خطرہ ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ صورتحال نہ صرف پاکستان کے ڈیجیٹل تبدیلی کے وسیع سفر کو تباہ کر دے گا بلکہ پاکستان کے ساڑھے 19 کروڑ ٹیلی کمیونیکیشن صارفین اور 12 کروڑ 30 لاکھ براڈ بینڈ صارفین کی زندگیوں کو بھی تباہ کن حد تک متاثر کرے گی۔
سیلاب سے متاثرہ صوبوں میں 3 ہزار 386 سیل سائٹس غیر فعال ہونے کی وجہ سے موبائل کنیکٹیویٹی اور انٹرنیٹ سروسز معطل ہوئیں جس کے نتیجے میں ہزاروں سیلاب متاثرین کا لوگوں اور امدادی ٹیموں سے رابطہ نہیں ہو سکا۔
امدادی ٹیموں نے بھی رابطے قائم نہ ہونے کے مسائل کی وجہ سے متعلقہ محکموں کے ساتھ بات چیت میں مشکلات کی شکایت کی۔
قلیل مدتی رابطے کی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے کمپنیوں نے مفت آن نیٹ وائس کال سروسز کی پیشکش کی لیکن یہ حل مسائل کے ایک بڑے سلسلے سے نمٹنے میں معمولی کوشش ثابت ہوا۔
رپورٹ میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ موسمیاتی تبدیلیوں اور تباہی کے واقعات میں تیزی کے پیشِ نظر پاکستان کا بنیادی انفرااسٹرکچر کمزور ہے۔
لہٰذا ایک پائیدار اور مضبوط ٹیلی کام سیکٹر بنانا ضروری ہے جو اس طرح کے واقعات کو سنبھال سکے جوکہ امداد کی فوری کوششوں اور ہماری طویل مدتی ڈیجیٹل عملداری کے لیے بھی اہم ہے۔
ٹیلی کمیونیکیشن پورے ڈیجیٹل نظام کی بنیادی تہہ بناتا ہے اور اگر موجودہ مسائل کو مجموعی طور پر حل نہ کیا گیا تو پاکستان کا ڈیجیٹل ایکو سسٹم‘ مستقل طور پر متاثر ہو جائے گا۔
رپورٹ میں یہ تجویز دی گئی کہ پاکستان کو پائیدار روابط کے لیے مخصوص ہنگامی منصوبہ بنانے کی ضرورت ہے۔