کراچی: (سچ خبریں) صوبائی کابینہ نے 5 سال کے لیے سندھ ہیومن رائٹس پالیسی کی منظوری دے دی جس کے تحت معاشرے کے پسماندہ طبقات بشمول خواتین، بچوں، مزدوروں، اقلیتوں، معذوروں اور خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ اور فروغ کو یقینی بنایا جائے گا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعلیٰ ہاؤس سندھ میں ہونے والے اجلاس میں سندھ کے محکمہ برائے انسانی حقوق نے پالیسی مسودہ کابینہ کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ یہ مسودہ حقوقِ پاکستان پروجیکٹ کی تکنیکی ٹیم اور دیگر ماہرین کی معاونت سے تیار کیا گیا ہے۔
محکمہِ انسانی حقوق نے کابینہ کو بتایا کہ اس پالیسی کی مدت 5 سال مقرر کی گئی ہے جس کا اطلاق 2023ء سے 2027ء تک ہوگا جبکہ ہر 5 سال بعد بین الاقوامی اور صوبے میں انسانی حقوق کی تازہ ترین پیش رفت کو مدِ نظر رکھ کر اس کا جائزہ لیا جائے گا۔
اس پالیسی میں دو کیٹگریز کو شامل کیا گیا ہے ایک کیٹگری سول اور سیاسی حقوق (سی پی آر) جبکہ دوسری کیٹگری معاشی، معاشرتی اور ثقافتی حقوق (اے ایس پی آر) سے متعلق ہے۔
کابینہ کو مطلع کیا گیا کہ زندگی جینے کا حق، آزادی اور تحفظ، انصاف اور معلومات تک رسائی کے حق کو سی پی آر کے زمرے میں شامل کیا گیا ہے، جبکہ مزدوروں کے حقوق، صحت کی سستی سہولیات کا حق، ترقی کا بطور تعلیم حق، ثقافتی حقوق اور ماحولیاتی حقوق کو ای ایس سی آر کے زمرے میں شامل ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے زیرِ صدارت اجلاس میں کابینہ کو بتایا گیا کہ پالیسی مسودہ صوبائی حکومت کے 19 محکموں اور اداروں جبکہ سول سوسائٹی کے 24 نمائندگان کو بھی بھیجا گیا ہے تاکہ ان سے اس متعلق رائے حاصل کی جاسکے۔
مزید بتایا گیا کہ سندھ ہیومن رائٹس پالیسی، آئین میں موجود حقوق، پاکستان اور دیگر بین الاقوامی ذمہ داران کی جانب سے توثیق شدہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے معاہدوں اور جنرلائزڈ اسکیم آف پریفرنس (جی ایس پی) کے تحت انسانی حقوق کے فروغ، تحفظ اور تکمیل پر مرکوز ہے۔
بتایا گیا کہ یہ پالیسی پسماندہ طبقات کے مسائل کو حل کرتی ہے، اس کی شقوں میں خواتین، بچوں، اقلیتوں، بزرگ شہریوں، معذور افراد اور خواجہ سراؤں کے حقوق کو شامل کیا گیا ہے۔
ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ کے معاونِ خصوصی برائے انسانی حقوق سریندر ولاسائی نے کہا کہ اس پالیسی مسودے میں مختلف شعبوں میں اہداف کی ایک حد مقرر کی گئی ہے، جس میں یونیورسٹی کی سطح پر انسانی حقوق کے ڈگری پروگراموں کا تعارف، اقلیتوں کی عبادت گاہوں کے تحفظ کے لیے فعال اقدامات، رواداری کو فروغ دینے اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کی حوصلہ شکنی کے لیے نصاب میں اصلاحات لانا شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس مسودے میں جامع پالیسی اور پروگراموں کے نفاذ کے ذریعے جرائم میں انصاف کے نظام، انصاف کی انتظامیہ، پولیس فورس میں موجود نقائص کو دور کرکے کمزور طبقے تک مفت قانونی امداد تک رسائی کے لیے ایک مضبوط نظام وضع کرنے کا ہدف بھی مقرر کیا گیا ہے تاکہ ان کی شکایات کا ازالہ ہوسکے۔
سریندر ولاسائی نے مزید کہا کہ پالیسی کے تحت خواتین کے خلاف جرائم جیسے جبری شادی اور غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے حکومتِ سندھ کا ایکشن پلان بھی وضع کیا گیا ہے۔
کابینہ نے بےنظیر انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (بی آئی یو ٹی) کی عمارت کو سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (ایس آئی یو ٹی) کے سپرد کرنے کا فیصلہ کرنے کے ساتھ ساتھ 10 کروڑ 14 لاکھ روپے کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے فنڈز کی بھی منظوری دی ہے جبکہ مشینری، آلات اور فرنیچر کی خریداری کے لیے 76 کروڑ 78 لاکھ 77 ہزار روپے کے اضافی فنڈز کی فراہمی کا بھی اعلان کیا۔
کابینہ نے ایس آئی یو ٹی کو آپریشنل لاگت کے طور پر ڈیڑھ ارب روپے کی امدادی گرانٹ بھی فراہم کرنے کی منظوری دی ہے، تاہم رقم کا اجرا ابھی نہیں ہوسکا ہے، اس معاملے پر بحث کے بعد کابینہ نے ایس آئی یو ٹی کو 2 ارب 36 کروڑ روپے جاری کرنے کی منظوری دی۔
کابینہ نے محکمہ صحت کو ادویات اور سرجیکل اشیا کی خریداری جاری رکھنے کی اجازت دی ہے۔
دریں اثنا، کابینہ کو بتایا گیا کہ ٹنڈو جام جانے والے حیدرآباد اور میرپورخاص کے مشترکہ راستے میں پانی کے جمود کے مسئلے کو حل کرنے اور متاثرہ علاقے کے مکینوں کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے صوبائی حکومت اسٹارم واٹر ڈرین، سیوریج لائن اور نکاسی آب کے نظام کی تعمیر کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
صوبائی کابینہ نے نکاسی آب کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے ایک ارب روپے کی منظوری بھی دی۔
گھوٹکی کندھ کوٹ پل کی تعمیر کے لیے کابینہ نے قرض دہندگان اور بینکوں کو 5 ارب روپے کی ادائیگی کی منظوری بھی دی۔