اسلام آباد: (سچ خبریں) سربراہ مسلم لیگ (ن) نواز شریف کی 4 سالہ خود ساختہ جلاوطنی سے وطن واپسی میں ایک ہفتے سے بھی کم وقت رہ گیا ہے، پیپلزپارٹی کے سینیئر رہنماؤں نے اس ’مفاہمت‘ پر سوال اٹھانا شروع کر دیے ہیں جو کہ اُن کے دعوے کے مطابق بِلارکاوٹ وطن واپسی یقینی بنانے کے لیے نواز شریف اور متعلقہ حلقوں کے درمیان طے پا گئی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق رہنما پیپلز پارٹی راجا پرویز اشرف کی جانب سے 21 اکتوبر کو نواز شریف کی وطن واپسی کے حوالے سے ’شریف برادران اور متعلقہ حلقوں کے درمیان مفاہمت‘ کے تذکرے کے بعد پنجاب سے تعلق رکھنے والے پیپلزپارٹی کے ایک اور سینیئر رہنما نے ایک سزا یافتہ مجرم کو وطن آمد پر ’سرکاری پروٹوکول‘ دیے جانے کے ارادے پر اعتراض کیا اور کہا کہ انہیں وطن واپس آنے کے بعد الیکشن لڑنے کا سوچنے سے پہلے جیل میں اپنی سزا پوری کرنی چاہیے۔
پیپلز پارٹی پنجاب کے جنرل سیکریٹری حسن مرتضیٰ نے گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ سزا یافتہ نواز شریف کو پاکستان واپسی پر سرکاری پروٹوکول دینے کا کوئی جواز نہیں ہے، اگر انہیں عدالتوں سے کلین چٹ مل رہی ہے تو پھر یہ سہولت دوسروں کو بھی دی جانی چاہیے۔
پیپلزپارٹی لاہور کے صدر اسلم گِل کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے حسن مرتضیٰ نے کہا کہ نواز شریف کو وطن پہنچ کر جیل میں اپنی قید کی مدت پوری کرنی چاہیے اور اس کے بعد ہی الیکشن لڑنے کا سوچنا چاہیے۔
نواز شریف، العزیزیہ کرپشن کیس میں اپنی 7 سالہ قید کی سزا کے دوران 2019 میں ’علاج‘ کے لیے لندن روانہ ہوگئے تھے جب لاہور ہائی کورٹ نے انہیں ’4 ہفتوں‘ کے لیے ضمانت دی تھی۔
ان 4 برسوں کے دوران انہیں العزیزیہ اور ایون فیلڈ کرپشن کیس میں عدالتی کارروائی سے مسلسل غیر حاضر رہنے کی وجہ سے اشتہاری مجرم قرار دیا گیا۔
نواز شریف اس وقت سعودی عرب میں ہیں اور وہ 21 اکتوبر کو دبئی کے راستے پاکستان روانہ ہوں گے اور مینار پاکستان پر جلسے سے خطاب کریں گے، امکان ہے کہ ان کی قانونی ٹیم اگلے ہفتے ان کی حفاظتی ضمانت کے لیے درخواست دے گی۔
حسن مرتضیٰ نے کہا کہ ایک بات نہیں بھولنی چاہیے کہ نواز شریف کے کندھوں پر مقدمات کا بہت بڑا بوجھ ہے اور وہ سزا یافتہ بھی ہیں۔
انہوں نے نواز شریف اور سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمٰن کو بھی مشورہ دیا کہ وہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے ترجمان نہ بنیں اور اسے اپنا کام کرنے دیں۔
نگران حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے رہنما پیپلزپارٹی نے کہا کہ وہ عام انتخابات کے انعقاد کے علاوہ سب کچھ کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نگران حکومت کی بنیادی ذمہ داری انتخابات کا انعقاد ہے اور وہ باقی تمام کام کر رہی ہے لیکن اپنے اصل کام سے لاعلم ہے۔
انہوں نے اساتذہ کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ نگران حکومت کے پاس چھٹیوں کی ادائیگی اور (اساتذہ کی) دیگر مراعات کو ختم کرنے کا مینڈیٹ نہیں ہے۔
مسلم لیگ (ن) کو بالواسطہ طور پر نشانہ بناتے ہوئے حسن مرتضیٰ نے کہا کہ پیپلزپارٹی پنجاب میں اِن ترقیاتی کاموں کو رکوانے کے لیے عدالت جانے کا حق محفوظ رکھتی ہے جن کا مقصد ایک ’مخصوص جماعت‘ کو فائدہ پہنچانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سرکاری ملازمین ’ذاتی نوکروں‘ کے طور پر کام کر رہے ہیں اور یہ کوئی لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ہے، پیپلز پارٹی ایسی چیزوں کی نشاندہی کرتی رہے گی۔
2 روز قبل جمعے کو کے پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما راجا پرویز اشرف نے کہا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف سمجھوتے کے تحت وطن واپس آرہے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے نواز شریف کی وطن واپسی کو ’خفیہ معاہدے‘ کا نتیجہ قرار دیا۔
ترجمان پی ٹی آئی نے گزشتہ روز ایک بیان میں کہا کہ مفرور اور عدالت سے سزا یافتہ مجرم کی وطن واپسی قانون اور انصاف کے قتل کے مترادف ہے، یہ ملک کے نظام انصاف کے لیے ایک بڑا امتحان ہے۔
پی ٹی آئی کے سینٹرل پنجاب کے ایڈیشنل جنرل سیکریٹری سردار عظیم اللہ خان نے کہا کہ نواز شریف قانون اور انصاف کو روند کر بند کمرے میں طے کی گئی سازش اور بدنام زمانہ لندن پلان کے تحت وطن واپس آرہے ہیں۔
دریں اثنا مسلم لیگ (ن) نے 21 اکتوبر کو پارٹی کے قائد نواز شریف کی وطن واپسی پر مینار پاکستان پر جلسہ کرنے کی اجازت کے لیے ضلعی انتظامیہ کو باضابطہ درخواست دے دی۔
مسلم لیگ (ن) اپنے قائد نواز شریف کی وطن واپسی پر لاہور میں پاور شو کو پارٹی کے لیے سب سے اہم تقریب سمجھتی ہے۔
لاہور کی ضلعی انتظامیہ نے ہفتہ کو اپنی ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا اجلاس منعقد کیا اور جلسے کی اجازت دینے سے قبل امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لیا۔
رابطہ کرنے پر ڈپٹی کمشنر نے تصدیق کی کہ مسلم لیگ (ن) نے درخواست دے دی ہے اور انتظامیہ، پارٹی کو جلسے کے انعقاد کے لیے این او سی جاری کرنے پر کام کر رہی ہے۔
مزید یہ بات سامنے آئی کہ ضلعی انتظامیہ، پی ٹی آئی کی جانب سے 19 اکتوبر کو لاہور میں جلسہ عام کرنے کی درخواست کا بھی جائزہ لے رہی ہے۔