اسلام آباد: (سچ خبریں) حکومت کا بجٹ کو سپورٹ کرنے کے لیے قرضہ مالیاتی سختی کے باوجود 23-2022 کے پہلے ساڑھے سات مہینوں کے دوران بڑھ کر 18 کھرب روپے ہو گیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق بھاری قرضے حکومت کی نقد رقم کی بڑھتی ضروریات کو ظاہر کرتے ہیں جبکہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کا دباؤ ہے کہ حکومت اپنے اخراجات کم اور ریونیو بڑھائے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے یکم جولائی 2022 سے 17 فروری 2023 تک کے اعداد و شمار جاری کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر حکومت نے بینکوں سے بھاری قرضے لینے کا رجحان رکھا تو رواں مالی سال کے اختتام تک نیا ریکارڈ قائم ہو جائے گا۔
ابتدائی ساڑھے سات مہینے کے دوران خالص قرضے ادا کیے گئے تھے تاہم مالی سال 2022 کے اختتام تک 31 کھرب 33 ارب روپے کے قرضے لیے تھے۔
بینکرز کا خیال ہے کہ حکومت اخراجات پورے کرنے کے لیے کی رواں مالی سال کی آخری سہ ماہی میں بہت زیادہ قرضہ لے گی، اضافی ٹیکسز، پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے اور جنرل سیلز ٹیکس میں ایک فیصد اضافے کے باوجود اب تک محصولات کی وصولی ہدف سے کم ہے۔
مالی سال 23 کے بجٹ میں وفاقی حکومت کی خالص آمدنی کا تخمینہ74 کھر 70 ارب روپے لگایا گیا تھا لیکن اسے حاصل کرنا مشکل ہے۔
پورے مالی سال کے لیے ملکی قرضوں کی فراہمی کا تخمینہ 39 کھرب 50 ارب روپے روپے لگایا گیا ہے، تاہم ماہرین کے مطابق شرح سود میں 300 بیسس پوائنٹس اضافے کے بعد یہ بڑھ کر 54 کھرب تک پہنچ سکتے ہیں۔
عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کا کہنا ہے کہ بنیادی خسارہ خام ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کا 0.9 فیصد یا تقریباً 840 ارب روپے ہو لیکن حکومت اسے 0.45 فیصد یا 450 ارب روپے کے قریب رکھتی ہے۔
مالی سال 23-2022 کے بجٹ تخمینوں کے مطابق بنیادی خسارہ 0.2 فیصد اور مالیاتی خسارہ 4.9 فیصد رہنے کا تخمینہ لگایا گیا۔
ٹریس مارک کے چیف ایگزیکٹیو فیصل مامسا نے کہاکہ پاکستان کا سود اور آمدنی کا تناسب خطے میں سب سے خراب ہے (سری لنکا سے نیچے ہے) جو 42 فیصد سے بڑھ کر 54 فیصد تک ہو سکتا ہے، اس کا مطلب ہے کہ سود کی ادائیگی 40 کھرب سے بڑھ کر 54 کھرب تک ہو جائے گی۔
20 فیصد جتنی شرح سود کے ساتھ زیادہ قرض لینے سے ترقیاتی اخراجات میں نمایاں کمی آئے گی جس سے مجموعی معاشی نمو بھی کم ہو گی۔