🗓️
اسلام آباد: (سچ خبریں) حکومت الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کے ایکٹ (پیکا) 2016 میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کی منصوبہ بندی کر رہی ہے، جس کے تحت ایک نئی اتھارٹی تشکیل دی جائے گی جس کو آن لائن مواد کو بلاک کرنے اور سوشل میڈیا تک رسائی کو روکنے کے علاوہ ’جعلی خبریں‘ پھیلانے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا اختیار حاصل ہوگا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ڈان کو موصول ’الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام (ترمیمی) ایکٹ 2024‘ کے مسودے میں ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی (ڈی آر پی اے) کے قیام کی تجویز دی گئی ہے۔
ڈی آر پی اے کو آن لائن مواد کو ہٹانے، ممنوعہ یا فحش مواد تک رسائی حاصل کرنے یا شیئر کرنے پر لوگوں پر مقدمہ چلانے اور جن سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر یہ مواد شیئر کیا گیا، ان کے خلاف کارروائی کرنے جیسے معاملات سے نمٹنے کا اختیار دینے کی تجویز شامل ہے۔
وزیر اعظم کے مشیر بیرسٹر عقیل ملک نے ترامیم کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ نئی شقوں کا مقصد غلط معلومات اور منفی پروپیگنڈے کو ختم کرنا ہے۔
ترمیم کے مسودے میں مجوزہ تبدیلیوں میں سب سے زیادہ قابل ذکر ’سوشل میڈیا پلیٹ فارم‘ کی نئی تعریف ہے، جس میں مزید توسیع کی گئی ہے اور اب اس میں سوشل میڈیا تک رسائی کے لیے استعمال ہونے والے ٹولز اور سافٹ ویئر بھی شامل ہیں۔
مسودے میں پیکا ایکٹ کے سیکشن 2 میں ایک نئی شق کی تجویز شامل ہے، جس میں قانون میں بیان کردہ اصطلاحات کی تعریف شامل ہیں۔
’سوشل میڈیا تک رسائی کی اجازت دینے والے نظام کو چلانے والا کوئی بھی شخص‘ کو بھی نئی تعریف میں شامل کیا گیا ہے۔
اس تعریف میں ایک اور اضافہ ’ویب سائٹ‘، ’ایپلی کیشن‘ یا ’مواصلاتی چینل‘ کا ہے جو لوگوں کو سوشل میڈیا تک رسائی حاصل کرنے اور مواد پوسٹ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
یہ توسیع شدہ تعریف حکومت کو ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس (وی پی این) کے استعمال کو بلاک یا محدود کرنے کی اجازت دے سکتی ہے کیونکہ وہ ان سوشل میڈیا سروسز (ایکس) تک رسائی حاصل کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں جو پاکستان میں بلاک ہیں۔
حکومت نے پہلے وی پی این کو رجسٹر کرنے اور غیر رجسٹرڈ پراکسیز کو بلاک کرنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن قانونی مشیروں نے نشاندہی کی کہ یہ بذات خود کوئی مواد نہیں جسے بلاک کیا جائے یا پابندی عائد کی جائے بلکہ یہ مواد تک رسائی کے ٹولز ہیں لہٰذا حکام کے پاس انہیں روکنے کی کوئی قانونی بنیاد نہیں تھی۔
ترمیم شدہ قانون کے تحت حکومت ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی قائم کرے گی، جسے وہ تمام اختیار حاصل ہوں گے جو اس وقت پیکا ایکٹ کے تحت پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو حاصل ہیں۔
یہ اتھارٹی وفاقی اور صوبائی حکومت کو ’ڈیجیٹل اخلاقیات سمیت متعلقہ شعبوں‘ میں تجاویز دینے کے علاوہ تعلیم اور تحقیق کو فروغ دے گی، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی حوصلہ افزائی اور سہولت فراہم کرے گی اور صارفین کے آن لائن تحفظ کو یقینی بنائے گی۔
ڈی آر پی اے سوشل میڈیا مواد کو ’ریگولیٹ‘ کرے گا، پیکا ایکٹ (ترمیم) کے تحت شکایات کی تحقیقات کرے گا اور حکام کو مواد تک رسائی کو ’بلاک‘ یا محدود کرنے کا حکم دے گا۔
ڈی آر پی اے سوشل میڈیا کمپنیوں کے لیے اپنے احکامات پر عمل درآمد کے لیے ٹائم فریم کا تعین کرے گا اور ان پلیٹ فارمز کے لیے پاکستان میں دفاتر یا نمائندے رکھنے کے لیے سہولت فراہم کرے گا۔
ڈی آر پی اے کے قیام کا عمل 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد شروع ہوا تھا۔
مئی میں وزیر اعظم شہباز شریف نے مجوزہ ڈی آر پی اے کے مسودے پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے اپنے مشیر رانا ثنا اللہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔
وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے ستمبر میں ’وائس آف امریکا اردو‘ کو بتایا تھا کہ وفاقی کابینہ میڈیا ہاؤسز، صحافیوں کی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں سمیت اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتی ہے۔
تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ اس حوالے سے اب تک اسٹیک ہولڈرز سے کسی قسم کی بات چیت ہوئی ہے یا نہیں۔
اب یہ تجویز سامنے آئی ہے کہ ڈی آر پی اے چیئرپرسن سمیت دیگر 6 ممبران پر مشتمل ہوگی، جن میں 3 ’عہدے دار‘ بھی شامل ہوں گے، وفاقی حکومت 3 سال کے لیے چیئرپرسن اور 3 مکمل اراکین کا تقرر کرے گی۔
اس کمیٹی کے ارکان وزارت اطلاعات و انفارمیشن ٹیکنالوجی کے سیکریٹریز اور چیئرمین پی ٹی اے ہوں گے۔
مسودہ ترامیم کے مطابق ڈی آر پی اے کے تمام فیصلے اکثریتی اراکین کی رضامندی سے کیے جائیں گے لیکن کسی بھی ضروری معاملے کی صورت میں چیئرپرسن کو کسی بھی غیر قانونی آن لائن مواد کو بلاک کرنے کے لیے ہدایات جاری کرنے کا خصوصی اختیار ہوگا، چیئرپرسن کے فیصلے کی اتھارٹی کو 48 گھنٹوں کے اندر ’توثیق‘ کرنا ہوگی۔
ڈی آر پی اے کے پاس یہ اختیار ہوگا کہ وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو اس کے قواعد کی پاسداری کرنے کے لیے ’رجسٹرڈ‘ کر سکے اور ان کے لیے شرائط طے کر سکے۔
اتھارٹی حکومت اور سوشل میڈیا کمپنیوں کو غیر قانونی آن لائن مواد کو بلاک یا ہٹانے کے لیے کہہ سکتی ہے۔
ترمیم کے مسودے میں غیر قانونی مواد کی تعریف کو بھی کافی حد تک وسعت دی گئی ہے۔
پیکا ایکٹ کے سیکشن 37 میں موجودہ ’غیر قانونی آن لائن مواد‘ کی تعریف میں اسلام مخالف، پاکستان کی سلامتی یا دفاع کے خلاف مواد، امن عامہ، غیر شائستگی، غیر اخلاقی مواد، توہین عدالت یا اس ایکٹ کے تحت کسی جرم کے لیے اکسانا شامل ہے۔
ترمیم شدہ مسودے میں کم از کم 16 قسم کے مواد کی فہرست دی گئی ہے، جسے غیر قانونی سمجھا جائے گا۔
ان میں گستاخانہ مواد بھی شامل ہے، اس کے علاوہ تشدد اور فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینا، فحش مواد، کاپی رائٹ کی خلاف ورزی، جرائم یا دہشت گردی کی حوصلہ افزائی، جعلی یا جھوٹی رپورٹس، آئینی اداروں اور ان کے افسران بشمول عدلیہ یا مسلح افواج کے خلاف ’الزام تراشی‘، بلیک میلنگ اور ہتک عزت وغیرہ شامل ہے۔
مشہور خبریں۔
رہنما پی ٹی آئی حلیم عادل شیخ 3 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے
🗓️ 3 ستمبر 2023اسلام آباد:(سچی خبریں) انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) نے
ستمبر
نیویارک میں پی آئی اے کی اربوں ڈالر کی جائیداد بڑے پراپرٹی ڈیلرز کی توجہ کا مرکز بن گئی
🗓️ 5 مارچ 2025اسلام آباد: (سچ خبریں) نیو یارک کے قلب میں واقع روز ویلٹ
مارچ
عالمی میڈیا میں انقلاب اسلامی ایران کی 44ویں سالگرہ کی تقریب کی عکاسی
🗓️ 11 فروری 2023سچ خبریں:11 فروری بروز ہفتہ مختلف ذرائع ابلاغ نے انقلاب اسلامی کی
فروری
دوسرے ممالک میں امریکی جوہری ہتھیاروں کی تعیناتی پر روس کی سخت تنقید
🗓️ 28 مارچ 2023سچ خبریں:روس نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ دوسرے ممالک سے جوہری
مارچ
12 فروری 1978 کو کیا ہوا؟
🗓️ 1 فروری 2025سچ خبریں: اسلامی انقلاب کی فتح کے یقینی آثار کے ظہور کے
فروری
فیصل سلطان نےڈیجیٹل ویکسینیشن پاسپورٹ کو وقت کی ضرورت قرار دیا
🗓️ 12 جون 2021اسلام آباد(سچ خبریں) وزیرِ اعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی برائے صحت
جون
کیا دہشت گردی کا مقابلہ کرنا صرف فوج کا کام ہے؟وزیراعظم کی زبانی
🗓️ 25 جون 2024سچ خبریں: وزیراعظم شہباز شریف نے نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی
جون
زمین کا وہ حصہ جہاں بارش کو پہلی بار ریکارڈ کیا گیا
🗓️ 22 اگست 2021ناروے( سچ خبریں) گرین لینڈ کی سطح سمندر سے 2 میل بلند
اگست