اسلام آباد:(سچ خبریں) سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی درخواست دائر کردی گئی۔
یہ درخواست لاہور سے تعلق رکھنے والے وکیل نے سپریم کورٹ میں دائر کی ہے۔ دائر کردہ درخواست میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کے خلاف فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرنے سے ’انکار‘ پر توہین عدالت کی کارروائی کی درخواست کی گئی۔
درخواست گزار نے ان دونوں ججز اور ریاست پاکستان کو فریق بنایا ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ یہ ججز، چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے سونپے گئے عدالتی اور انتظامی کام کرنے کے پابند ہیں لیکن ان دونوں نے اس بنیاد پر درخواستوں کو سننے سے انکار کر دیا کہ چیف جسٹس کے ازخود نوٹس اختیارات سے متعلق کیس سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔
چیف جسٹس نے 21 جون کو فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے لیے 9 ججوں پر مشتمل بینچ تشکیل دیا تھا لیکن جب اگلے روز سماعت شروع ہوئی تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بینچوں کی تشکیل کے حوالے سے چیف جسٹس کے اختیارات سے متعلق تنازع کو پہلے طے کیا جائے، جسٹس طارق مسعود نے بھی قاضی فائز عیسیٰ کے مؤقف کی تائید کی تھی۔
ان ججز کی جانب سے یہ ریمارکس سامنے آنے کے بعد عدالت عظمیٰ کے بینچ کو 7 ججوں تک محدود کر دیا گیا تھا، بعد ازاں حکومت کی جانب سے اعتراضات سامنے آنے کے بعد ایک اور جج جسٹس منصور علی شاہ نے بھی خود کو اس بینچ سے الگ کرلیا تھا جس سے اس کی طاقت مزید کم ہو گئی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اس بیان کو سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیا گیا لیکن بعد میں اسے ہٹا دیا گیا، اس بیان میں کہا گیا کہ یہ وضاحت ضروری ہے کہ 14 اپریل سے جب سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ کا نفاذ معطل کیا گیا، میں نے کسی بھی بینچ میں نہ بیٹھنے کا انتخاب کیا۔
اپنے نوٹ میں جسٹس طارق مسعود نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے نقطہ نظر کی تائید کی تھی، انہوں نے کہا تھا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے بینچ میں ان کا نام بینچ میں شامل کرنے سے قبل ان سے کوئی مشاورت نہیں کی۔