?️
اسلام آباد: (سچ خبریں) جسٹس اطہر من اللہ بالکل ٹھیک تھے کہ جب انہوں نے کہا کہ ہائبرڈ حکمرانی کو تسلیم کرنے کا مطلب ہے کہ ’ملک میں آمریت ہے اور آئین کی کوئی حکمرانی نہیں ہے‘۔
لیکن معاملات دوسری سطح پر چلے جاتے ہیں کہ جب وفاقی وزرا یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ان کی حکومت کے پاس کوئی اختیارات نہیں اور اصل اختیارات تو کسی اور کے ہاتھ میں ہیں۔ یہ محض ایک اعتراف نہیں بلکہ سیاسی رہنماؤں کی طرف سے آمرانہ حکمرانی کو تسلیم کرنا ہے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف کی جانب سے ’ہائبرڈ‘ حکومت کے مضبوط دفاع کے باوجود، حقیقت یہ ہے کہ ان کی پارٹی کی حیثیت محض سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے زیرِ تسلط طاقت کے ڈھانچے میں شامل ایک ایسے اداکار کی طرح ہے جس کا کھیل میں کوئی کردار نہیں۔ یہ خیال کہ عام شہری ملک چلا رہے ہیں، اب کسی کو قائل نہیں کرتا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ملک میں آئینی طرز حکمرانی کے فقدان پر افسوس کا اظہار کیا جس کی وجہ سے، ان کے مطابق اشرافیہ کی گرفت مضبوط ہوئی ہے۔ انہوں نے پاکستان میں موجودہ نظام کی ناکامی کی یاد دلاتے ہوئے کہا، ’ملک میں قانون یا آئین کی حکمرانی نہیں ہے، یہاں اشرافیہ کا قبضہ ہے‘۔
قومیں تب ناکام ہوتی ہیں جب ان میں قانون کی مضبوط حکمرانی نہ ہو۔ آئینی حکمرانی کی عدم موجودگی بالائے قانون اداروں کی مضبوطی کا باعث بنتی ہے جس سے بہت کم لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ قانون کی مضبوط حکمرانی اور جامع ادارے رکھنے والے ممالک بہت تیزی سے ترقی کرتے ہیں جبکہ وہاں معاشی ترقی کے ثمرات آبادی کے ایک بڑے حصے تک پہنچتے ہیں۔
پاکستان کے ترقی نہ کرنے اور امیر اور غریب کے درمیان خلیج بڑھنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت لوگوں کی مدد کرنے کے بجائے زیادہ تر ان سے لیتی ہے۔ یہ ملک بھر میں بڑھتی ہوئی غربت میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
یہ افسوسناک صورت حال ہے کہ تقریباً 45 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور یہ تناسب واضح طور پر بڑھ رہا ہے۔ یہ نظام عوام کو تعلیم اور دیگر ضروری سہولیات بھی فراہم نہیں کر سکتا۔ لیکن ہمارے وزیر دفاع چاہتے ہیں کہ ہم اس بات پر یقین کریں کہ ’ہائبرڈ‘ حکمرانی کی وجہ سے ملک معاشی بحالی کے دور میں ہے۔ ہمارے حکمران اپنی معاشی حالت زار اور بنیادی جمہوری حقوق سے انکار، دونوں کی وجہ سے عوام میں بڑھتے اضطراب کو دیکھنے سے قاصر ہیں۔
نام نہاد ’ہائبرڈ‘ حکومت غیر منصفانہ انتخابات کے نتیجے میں بنائی گئی ہے اور یہ اپنے رہنماؤں کو آزادانہ طور پر چننے کا حق عوام سے چھین لیتی ہے جبکہ اس حق کی تو آئین نے ضمانت دی ہے۔ ایک پارلیمنٹ کے ذریعے آئین میں تبدیلیاں کی گئی ہیں جس کے مینڈیٹ پر بھی بہت سے لوگوں کو شکوک و شبہات ہیں۔
اس بڑھتی ہوئی آمرانہ حکمرانی کا پہلا شکار عدلیہ کی آزادی بنی۔ یہ کہنا مناسب ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کی وجہ سے اب اعلیٰ عدالتیں آزادانہ طور پر کام کرنے کے بجائے زیادہ تر حکومت کی تابع ہوچکی ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ کے مطابق، آئین واضح کرتا ہے کہ عوام کیا چاہتے ہیں جبکہ یہ عوام کے اپنے منتخب نمائندگان کے ذریعے حکومت کرنے کے حق پر یقین رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’کسی بھی ادارے یا سرکاری افسر کو سیاسی انجینئرنگ میں مشغول نہیں ہونا چاہیے، عوامی نمائندوں کو آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے برسرِاقتدار آنا چاہیے لیکن یہ ہمارا خواب ہی رہ گیا ہے‘۔ اس میں صرف غیر منتخب ادارے ہی قصور وار نہیں ہیں بلکہ سیاسی رہنما بھی ذمہ دار ہیں جو اقتدار کی خاطر غیر آئینی سیٹ اپ میں شریک ہونے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ کے صفحات ایسی کئی مثالوں سے بھرے پڑے ہیں۔ اب خواجہ آصف جیسے ’ہائبرڈ‘ نظام کی حمایت کرنے والے سیاستدان بھول گئے ہیں کہ جب وہ اپوزیشن میں تھے تو سویلین کنٹرول واپس لانے اور آئین کا احترام کرنے کے وعدے کیا کرتے تھے۔ اقتدار میں موجود کچھ رہنما اب کہتے ہیں کہ ان کے اقدامات صرف ایک ’ضروری سمجھوتہ‘ ہیں۔ لیکن وہ یہ تسلیم نہیں کریں گے کہ ملک کے سیاسی مسائل کی اصل وجہ یہ ہے کہ عوام کے ووٹوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے اور آئین کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے حکمرانی نہیں کی جارہی ہے۔
ایک کنٹرول میڈیا کا استعمال سیاسی اور سماجی عدم اطمینان کو چھپانے کے لیے کیا جا سکتا ہے لیکن اس سے حقیقی مسائل نہیں حل ہوں گے۔ حزب اختلاف کے قانون سازوں کی تازہ ترین سزاؤں اور ان کی برطرفی نے پارلیمنٹ کی قانونی حیثیت کو مزید نقصان پہنچایا ہے۔
ان مشکوک اقدامات کا مقصد حکمران اتحاد کو ایوان میں دو تہائی اکثریت فراہم کرنا ہے جو اسے آئین میں مزید تبدیلیاں کرنے کی اجازت دے گا۔ یوں قانون کی حکمرانی کو مزید نقصان پہنچے گا۔ زیرِ تسلط عدلیہ اب عدالتی سہارا لینے والوں کے لیے مسائل کے حل کو انتہائی مشکل بنا دیتی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ سپریم کورٹ کے واحد جج نہیں ہیں جنہوں نے عدلیہ کی آزادی میں کمی اور قانون کی حکمرانی کے فقدان کے خلاف بات کی۔ عدالتی اختیارات میں تبدیلی کے خلاف ادارے کے اندر اور بھی مضبوط آوازیں اٹھی ہیں۔ خطوط کے ایک سلسلے میں سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے کئی بار چیف جسٹس کی توجہ قواعد کی خلاف ورزی کی جانب مبذول کروائی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے عدالت عظمیٰ کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھاتے ہوئے نشاندہی کی کہ 26ویں ترمیم کے خلاف درخواستیں تقریباً ایک سال تک سنی نہیں گئیں حالانکہ ان کا تعلق سپریم کورٹ کی آزادی سے ہے۔ اس مدت کے دوران عدالت عظمیٰ کو ایسے ججز سے بھرا گیا کہ جنہیں بہت سے لوگوں نے ایک متنازعہ عدالتی کمیٹی کے نمائندگان کے طور پر دیکھا۔ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں ججز کی تقرری کا طریقہ کار 26ویں ترمیم کے تحت تبدیل کر دیا گیا۔
انہوں نے ایک حالیہ خط میں زور دیا ہے کہ ’ان درخواستوں کو اصل فُل کورٹ کے ذریعے سنا جانا چاہیے، یعنی کمیٹی کے ذریعے سپریم کورٹ کا حصہ بننے والے ججز کو شامل نہیں کیا جانا چاہیے۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا تب تک موجودہ قیادت میں اٹھائے گئے تمام اقدامات کمزور ہیں کیونکہ وہ قابل اعتراض بنیادوں پر مبنی ہیں۔ حقیقی قیادت تعمیل کو منظم کرنے میں نہیں بلکہ اس بات کو یقینی بنانے میں ہے کہ عدالت آئین کی بے خوف محافظ کے طور پر شکوک و شبہات سے بالاتر ہوں‘۔
گزشتہ ہفتے جسٹس منصور علی شاہ اور تین دیگر سینئر ججز کے ایک اور خط نے سپریم کورٹ کے اندر بگڑتی ہوئی دراڑ کو اجاگر کیا۔ خط میں سپریم کورٹ رولز 2025ء کے نظرثانی اور منظوری کے لیے اپنائے جانے والے عمل پر سوال اٹھایا گیا ہے اور اس مقصد کے لیے بلائی گئی فل کورٹ میٹنگ پہلے سے طے شدہ اور یکطرفہ طور پر منظور شدہ فیصلے پر محض ’منظوری کی مہر‘ لگانے کے لیے منعقد کی گئی۔
اس خط میں دستخط کرنے والوں میں جسٹس منصور علی شاہ، منیب اختر، اطہر من اللہ اور عائشہ ملک شامل تھیں جبکہ انہوں نے فل کورٹ اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی۔
یہ اقدامات عدلیہ کی جو بھی آزادی رہ گئی ہے، اسے چھیننے کی کوشش کا حصہ لگتے ہیں۔ آمریت کا سایہ مزید گہرا ہوتا جارہا ہے۔
مشہور خبریں۔
امریکی قانون سازوں کا بائیڈن کو ایران کے ساتھ کسی بھی معاہدے کے بارے میں انتباہ
?️ 1 دسمبر 2021سچ خبریں:امریکی کانگریس میں ریپبلکن قانون سازوں کے ایک گروپ نے اس
دسمبر
کیا فس بک نفرت اور تشدد پر مبنی پوسٹس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے؟ اہم انکشاف
?️ 6 اکتوبر 2021نیویارک(سچ خبریں)سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک کی ایک سابق ملازمہ
اکتوبر
ہمارے شاہینوں کے جواب نے ہمسایوں کو جنگ بندی پر مجبور کیا۔ فیصل کریم کنڈی
?️ 16 مئی 2025پشاور (سچ خبریں) گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ
مئی
روس کے خلاف امریکہ اور نیٹو کی سازش
?️ 6 اپریل 2022سچ خبریں:روس کا کہنا ہے کہ یوکرین کے بحران کو لے کر
اپریل
پی ٹی آئی کا سپریم کورٹ سے اعظم سواتی کی گرفتاری کا ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ
?️ 1 دسمبر 2022لاہور: (سچ خبریں) رہنما پی ٹی آئی ڈاکٹر یاسمین راشد نے سینیٹر
دسمبر
آشیانہ اقبال ریفرنس: احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم شہباز شریف و دیگر کو بری کر دیا
?️ 18 نومبر 2023لاہور: (سچ خبریں) لاہور کی احتساب عدالت نے آشیانہ اقبال ریفرنس میں
نومبر
حکومت اپوزیش کے بجاے عوامی مشکلات پر توجہ دے: مریم اورنگزیب
?️ 17 جنوری 2021حکومت اپوزیش کے بجاے عوامی مشکلات پر توجہ دے: مریم اورنگزیب لاہور
جنوری
گزشتہ 40 سال میں زمین کتنی بدل چکی ہے؟جانئے اس رپورٹ میں
?️ 16 اپریل 2021نیویارک(سچ خبریں)امریکی خلائی ادارے ناسا اور گوگل نے کچھ ویڈیوز جاری کی
اپریل