بلوچستان:(سچ خبریں) بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز نے علیحدہ علیحدہ کارروائیوں میں 7 عسکریت پسندوں کو ہلاک کردیا جب کہ دو فوجی اہلکاروں نے بھی جامِ شہادت نوش کیا۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ سے جاری بیان کے مطابق پہلے واقعے میں سیکیورٹی فورسز نے ضلع قلعہ سیف اللہ کے قصبے مسلم باغ میں فرنٹیئر کانسٹیبلری کے ایک کیمپ پر صبح سویرے ہوئے حملے کے بعد دو عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا۔
بیان میں کہا گیا کہ تاہم رات گئے تک دونوں فریقوں کے درمیان جاری فائرنگ کے تبادلے میں دو فوجی جوان شہید اور تین دیگر زخمی ہوئے۔
بیان میں ترجمان پاک فوج نے بتایا کہ کہ سیکورٹی فورسز نے ’دہشت گردوں پر دباؤ برقرار رکھا ہوا ہے‘۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ’ایک عمارت میں چھپے ہوئے دہشت گردوں کو پکڑنے کے لیے‘ کارروائی جاری تھی، اس دوران فائرنگ کا زبردست تبادلہ بھی ہوتا رہا۔
آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ کور7 کے کمانڈر آصف غفور’بلوچستان کے علاقے مسلم باغ میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کی نگرانی کر رہے ہیں جہاں دہشت گردوں کو گھیر لیا گیا ہے’۔
دوسرے واقعے میں ضلع کیچ کے علاقے ہوشاب میں آپریشن کے دوران سیکیورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں 5 شدت پسند مارے گئے۔
سیکورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے پاس سے بھاری مقدار میں اسلحہ اور گولہ بارود بھی قبضے میں لے لیا۔
آئی ایس پی آر نے جمعہ کی رات دیر گئے ایک بیان میں کہا کہ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب شدت پسندوں نے ہوشاب میں ایک سیکیورٹی چوکی پر کچھ فاصلے سے فائرنگ کی۔
جس کے بعد کی گئی کارروائی میں فضائی نگرانی کے ذریعے فرار ہونے والے دہشت گردوں کا بلور کے قریبی پہاڑوں میں تعاقب کیا گیا۔
آئی ایس پی آر نے بتایا کہ سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کا زبردست تبادلہ ہوا، جس کے نتیجے میں 5 عسکریت پسند مارے گئےجبکہ اسلحہ اور گولہ بارود کا بڑا ذخیرہ برآمد کیا گیا۔
وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے ایف سی کیمپ پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے دو جوانوں کی شہادت پر دکھ کا اظہار کیا ہے۔
اس حوالے سے جاری کردہ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ایف سی کے جوانوں نے بہادری سے حملے کو ناکام بنایا اور حملہ آوروں کو بھاری نقصان پہنچایا۔
انہوں نے کہا کہ قوم کو اپنی سیکیورٹی فورسز پر فخر ہے، جو عسکریت پسندوں کے حملوں کو ناکام بنانے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں۔
گزشتہ چند مہینوں کے دوران ملک کی سلامتی کی صورتحال ابتر ہوئی ہے اور عسکریت پسند تنظیمیں تقریباً بلا روک ٹوک حملوں کو انجام دے رہی ہیں۔
نومبر میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مذاکرات ختم ہونے کے بعد سے یہ گروپ اپنے حملوں میں تیزی لایا اور خاص طور پر خیبر پختونخوا اور افغانستان کی سرحد سے متصل علاقوں میں پولیس کو نشانہ بنایا ہے۔
رواں ماہ کے اوائل میں ماہرین نے ایک مباحثے میں خبردار کیا تھا کہ کالعدم ٹی ٹی پی بلوچ علیحدگی پسندوں کے علاوہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں مقیم مقامی عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر رہی ہے۔ ’ یہ ایک ایسی پیش رفت ہے جو ممکنہ طور پر ملک میں سیکیورٹی کی پہلے سے مخدوش صورتحال کو مزید خراب کر دے گی۔