اسلام آباد: (سچ خبریں) حکومت کی جانب سے افرادی قوت کے مقابلے زیادہ آمدنی والے افراد کو غیر متناسب طور پر فائدہ پہنچانے والے ٹیکس مراعات کو منسوخ کرنے کی توقع ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق عالمی مالیاتی فنڈ نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ تنخواہ دار ملازمین کی آمدنی کو (غیر تنخواہ دار) افراد کی ذاتی آمدنی کی طرح ہی سمجھے، تاہم، ایف بی آر اس سے متفق نہیں ہے اور اس کا خیال ہے کہ دونوں کی آمدنی کو یکساں تصور نہیں کیا جا سکتا۔
اگر تنخواہ اور غیر تنخواہ دار آمدنی کو آئی ایم ایف کی ہدایت پر ذاتی آمدنی تصور کیا جائے تو تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ نمایاں طور پر بڑھ جائے گا۔
بجٹ 2025-2024 کے لیے اب تک وضع کردہ ریونیو اقدامات 500 ارب روپے ہیں، تاہم، محصولات کی وصولی کے ہدف کے بارے میں آئی ایم ایف کے حتمی تخمینے موصول ہونے کے بعد محصولات کی اصل مقدار پر اتفاق کیا جائے گا، ایف بی آر ہیڈ کوارٹر میں کام کرنے کے روایتی طریقہ کے برعکس، وزارت خزانہ ٹیکس کی سفارشات کے لیے تمام حسابات کرتی ہے۔
ایف بی آر کی پیشگوئیوں کے مطابق، مالی سال 2025 میں خود مختار محصولات کی وصولی (جی ڈی پی نمو اور افراط زر کی بنیاد پر) 115 کھرب روپے سے تجاوز کر جائے گی، اس کے علاوہ وفاقی حکومت ریونیو اقدامات کا فیصلہ کرنے سے پہلے آئی ایم ایف سے مشاورت کرے گی، گزشتہ بجٹ میں حکومت نے کل 415 ارب روپے کے ریونیو اقدامات کا اعلان کیا تھا، ایف بی آر نے تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس چھوٹ کی حد 2024-25 میں بڑھا کر 12 لاکھ روپے کرنے کی تجویز دی ہے۔
تاہم، اس درخواست کو پھر 6 لاکھ روپے کی موجودہ استثنیٰ کی حد سے نیچے کی طرف لاتے ہوئے 9 لاکھ روپے کر دیا جاتا ہے، جس کی مانگ بڑھتی ہوئی افراط زر کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔
ایف بی آر نے آئی ایم ایف کے ساتھ پنشن ٹیکس کی ورکنگ پر بھی بات کی ہے، آئی ایم ایف کا مقصد تنخواہ کے سلیب کو پنشنرز کی آمدنی سے ملانا ہے، تاہم ایف بی آر کی سرگرمیاں وفاقی حکومت کے ملازمین کی پنشن تک محدود ہیں، وفاقی حکومت کے ملازمین کی پنشن کی مالیت تقریباً 700 ارب روپے ہے، ایف بی آر نے پنشنرز کی آمدنی کے لیے سیلری سلیب متعارف کرانے پر اعتراض کیا ہے اور امیر پنشنرز پر ٹیکس لگانے کے لیے متبادل طریقہ کار تجویز کیا ہے۔
نجی شعبے میں بڑی کمپنیاں اپنے ملازمین کو پنشن فراہم کرتی ہیں، ایک ٹیکس اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ ابھی تک اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے، انہوں نے کہا کہ وزارت خزانہ آئی ایم ایف سے پنشن سے متعلق ٹیکس تبدیلیوں پر بات کر رہی ہے، تاہم، ایف بی آر نے پنشن پر ٹیکس کے کوئی حقیقی ریونیو اثر کا اندازہ نہیں لگایا۔
مستثنیات کے خاتمے پر بھی آئی ایم ایف کے ساتھ پیشگی مشاورت میں توجہ دی جائے گی، اہلکار کے مطابق ایف بی آر نے ان استثنیٰ کو واپس لینے کے بعد ممکنہ ریونیو سے متعلق تمام اعداد و شمار فراہم کر دیے، آئی ایم ایف نے ایف بی آر سے کہا ہے کہ وہ تاجروں اور ہول سیلرز سے ٹیکس وصول کرے جو فی الحال ٹیکس وصولی میں حصہ نہیں ڈال رہے ہیں۔
درآمدات پر ریگولیٹری ٹیرف بڑھانے کا کوئی معاہدہ نہیں ہو سکا، آئی ایم ایف عام طور پر درآمدی ڈیوٹی تجویز نہیں کرتا کیونکہ اس کی بنیادی توجہ سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس پر ہے، خاص طور پر ود ہولڈنگ ٹیکس پر، اس وقت سیلز ٹیکس کی چھوٹ 12 کھرب روپے سے زیادہ ہے، تاہم، حکومت کو خوراک، بین الاقوامی معاہدوں اور دواسازی کی مصنوعات کے لیے استثنیٰ کو منسوخ کرنے کے مشکل فیصلے کا سامنا کرنا پڑے گا، تاہم، کچھ چیزیں، جیسے کیڑے مار دوا اور سولر پینل، سیلز ٹیکس کے تابع ہو سکتے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی، حکومت زیادہ سے زیادہ ریونیو بڑھانے کے لیے موجودہ ودہولڈنگ ٹیکس کی شرحوں میں اضافہ کرے گی جبکہ نئے ٹیکس بھی متعارف کرائے گی، جیسے کہ بینکوں سے کیش نکالنے پر ٹیکس کو بحال کرنا، مزید برآں، وزارت خزانہ مستثنیٰ خام مال کی درآمد پر ٹیکس عائد کرنے پر غور کر رہی ہے جبکہ موجودہ خام مال پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ کر رہی ہے۔
پی ٹی آئی حکومت نے برآمدات کو تیز کرنے اور ملک کی صنعت کاری کو بحال کرنے کے لیے خام مال پر ٹیکس ہٹا دیا تھا۔