اسلام آباد: (سچ خبریں)وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے کہا ہے کہ حکومت درآمدات کو مزید 3 ماہ تک محدود رکھے گی چاہے اس سے ترقی میں سست رفتاری کیون نہ ہو۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ میں اگلے تین ماہ تک درآمدات میں اضافہ کرنے کی اجازت نہیں دوں گا اور اسی دوراں ہم ایک پالیسی بھی تیار کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ میں سمجھ سکتا ہوں کہ اس سے ترقی کی شرح میں کچھ حد تک کمی آئے گی مگر میرے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے۔
شرح تبادلہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ڈالر کا اخراج، آمد سے بڑھ رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ماہ کے دورں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں تیزی سے کمی آئی ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ اگر کوئی چھوٹا دکاندار یہ جانتا ہے کہ اس کی یومیہ فروخت 30 ہزار روپے ہے جبکہ اس کے اسٹاک کی خریداری 80 ہزار روپے تک ہے تو اس دکاندار کو اسٹاک کم خریدنے کی ضرورت ہے اور ہم نے بھی یہی کیا ہے کہ درآمدات کو 7 ارب ڈالر سے کم کرکے 4.9 ارب ڈالر تک لے آئے اور تمام مسائل ختم ہو گئے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی درآمدی پابندیوں سے آٹوموبائل اور الیکٹرانک آلات کی صنعتیں متاثر ہوں گی، مزید کہا کہ وہ بے روزگاری پیدا نہیں کرنا چاہتے تاہم ان کی پہلی ترجیح درآمدات میں کمی ہے۔
مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ جب بہت زیادہ دباؤ تھا تو ہم نے تیل اور گیس زیادہ مقدار میں درآمد کرلی، اس وقت ہمارے پاس ڈیزل اور پیٹرول کے ذخائر 30 دن کے ہیں جبکہ پاکستان کے پاس عمومی طور پر 6 دن کا ڈیزل اور 10 دن کا پیٹرول ہوتا ہے، اسی طرح ہمارے پاس فرنس آئل کے ذخائر 6 ماہ تک ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم اپنی توانائی کی حفاظت اور توانائی کی فراہمی اور دیگر ذمہ داریوں کے لحاظ سے بہت بہتر ہیں اور ہم اگلے تین ماہ تک درآمدات کو کنٹرول کریں گے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ جون میں ملک کا درآمدی بل 7.7 ارب ڈالر تھا اور اگر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اس حد تک بڑھ گیا تو اس سے روپے پر دباؤ پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ مالی سال میں پاکستان کا درآمدی بل 80 ارب ڈالر تھا جبکہ اس کی برآمدات 31 ارب ڈالر تھیں، اس قسم کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے سے کوئی بھی ملک ترقی اور مستحکم نہیں ہو سکتا۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ اگرچہ ترقی پذیر ممالک کے لیے چھوٹا خسارہ چلانا ایک اچھی بات ہے لیکن پاکستان اپنے طویل عرصے کے خسارے کو نتیجہ خیز طور پر استعمال کرنے میں ناکام رہا ہے۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنے گزشتہ دور حکومت میں ساڑھے 11 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے والے پاور پلانٹس لگائے تھے لیکن بجلی کی پیداوار کو دوگنا کرنے سے صنعتی اور برآمدی شعبوں میں دوگنا اضافہ نہیں ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ چین جیسے دوسرے ممالک نے پاور پلانٹس لگانے کے بعد فیکٹریاں لگائیں مگر ہم نے صرف شادی ہال بنائے اور زرمبادلہ نہیں کمایا۔
مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ وہ برآمدات میں توسیع کے ماڈل پر یقین رکھتے ہیں نہ کہ درآمدی متبادل، حکومت کو بجٹ خسارے پر قابو پانے کی ضرورت ہے جس کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بنگلہ دیش، ویتنام اور پاکستان کی معاشی صورتحال نوے کی دہائی میں یکساں تھی، اب ان کی برآمدات 100 ارب ڈالر ہیں اور پاکستان کی برآمدات 30 ارب ڈالر اور ہر جگہ پیسہ مانگنا پڑتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ کوئی درست بات نہیں، میرے خیال میں اب وقت آگیا ہے کہ ہم ایک بالغ، باوقار قوم کی طرح کام کریں، نئے ٹیکس سے جی ڈی پی کا تناسب 9.2 فیصد ہے جس پر ملک نہیں چلا سکتے لہٰذا ہمیں مزید پیسوں کی ضرورت ہے۔
مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت اقتدار میں آئی تو ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا، اسی لیے انہوں نے وزیر خزانہ بننے کے چند دنوں بعد ہی عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے رجوع کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس کوئی اور آپشن نہیں تھا، اس وقت ملک کے پاس 10 ارب ڈالر کے ذخائر ہیں جبکہ اسے اگلے سال 21 ارب ڈالر واپس کرنے ہیں، یہ ڈیٹ سروسنگ نہیں، صرف قرض کی ادائیگی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف آئے گا، پھر ورلڈ بینک آئے گا اس کے بعد ایشیائی ترقیاتی بینک، پھر ایک چینی بینک ایشین انفرااسٹرکچر بینک نے بھی کہا ہے کہ اگر ورلڈ بینک قرضہ دے گا تو وہ بھی دیں گے، دوست ممالک بھی شائستگی سے ہمیں آئی ایم ایف سے رقم حاصل کرنے کی ترغیب دے رہے تھے کیونکہ کوئی بھی ڈوبتے ہوئے ملک کی پشت پناہی نہیں کرنا چاہتا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ اس کے لیے حکومت کو کچھ انتہائی مشکل فیصلے لینے پڑے، ہم نے پیٹرول کی قیمتیں بڑھا دیں جس سے مہنگائی بڑھی لیکن اگر ڈالر کی ادائیگی آمدنی سے زیادہ ہو تو ہم کہاں تک مداخلت کر سکتے ہیں کیونکہ مداخلت پر آئی ایم ایف کی پابندیاں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ قابلیت حاصل کرنا ضروری ہے کہ ملک کس قسم کی ترقی چاہتا ہے، بوم اینڈ بسٹ سائیکل یا پائیدار ترقی، اگر ہم نچلے طبقے کے لوگوں کو قدرے امیر بنائیں تو مقامی کھپت میں اضافہ ہوگا کیونکہ ان کی کھپت کی ضروریات میں مقامی مصنوعات شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے دو شعبوں کو ترجیح دی، ایک زراعت اور دوسرا برآمدات، زراعت کے لیے مراعات پہلے ہی دی جاچکی ہیں اور اب جلد ہی برآمد کنندگان کے لیے ایک اچھی مراعات پر مبنی پالیسی متعارف ہوگی۔
مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ ہم برآمدات کے بغیر ترقی نہیں چاہتے، ترقی صرف اس وقت سازگار ہوتی ہے جب یہ برآمدات سے ہو۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا روپے کی قدر کم ہے، انہوں نے جواب دیا کہ صحیح اعداد و شمار کسی کو معلوم نہیں، حکومت فاریکس مارکیٹ کو اس مقام پر لے جارہی ہے جہاں ڈالر کی آمد باہر سے نکل جائے گی اور شرح تبادلہ مستحکم ہو گی۔
چھوٹے تاجروں پر مقررہ ٹیکس واپس لینے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کا خیال ہے کہ عائد کردہ ٹیکس بہت مناسب اور اچھا ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم 30 ہزار روپے کے بل پر صرف 3 ہزار روپے مانگ رہے ہیں، کوئی دکاندار ماہانہ ایک لاکھ روپے سے کم نہیں کماتا جبکہ اتنی رقم کمانے والے تنخواہ دار لوگ زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے آئی ایم ایف سے مخصوص ادائیگیوں کا وعدہ کیا تھا اور کہا تھا کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ اگر آمدنی میں کوئی نقصان ہوتا ہے، تو ہم اسے پورا کریں گے، مگر سچ پوچھیں تو 7 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اچھے دنوں میں ایک دن برا بھی آتا ہے مگر اب ہم درست سمت پر ہیں اور تین چار ماہ تک اگر درآمدات پر کنٹرول کریں تو بہتری ہوگی، مگر میں ذاتی طور پر اس کے حق میں نہیں لہٰذا کچھ وقت میں ہم درآمدات میں اضافہ کریں گے اور اب ہمیں بجٹ خسارے پر کنٹرول کرنا ہے کیونکہ مسلم لیگ (ن) کے دور میں بجٹ خسارہ 16 ارب روپے تھا جبکہ گزشتہ حکومت میں بجٹ خسارہ 35 سو ارب روپے تھا۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم سب کو وہ پاکستان چاہیے جس کی 40 سے 50 ارب ڈالر کی درآمدات ہو جو کہ اس وقت 30 ارب ڈالر تک ہے۔