کراچی: (سچ خبریں) انسانی حقوق کمیشن برائے پاکستان (ایچ آر سی پی) نے شمالی سندھ میں امن و امان کی صورتحال، صنفی بنیاد پر تشدد کے زیادہ واقعات، صحافیوں کی حفاظت اور سیلاب سے متاثرہ کمیونٹیز کی سست بحالی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ایچ آر سی پی نے یہ بات شمالی سندھ کے لیے ایک ہائی پروفائل فیکٹ فائنڈنگ مشن کے اختتام پر کہی۔
مشن کو ریاستی اداروں اور ایجنسیوں پر سیاسی اور جاگیردارانہ اثر و رسوخ کی سطح پر بھی تشویش تھی جو لوگوں کی انصاف تک رسائی کو غیر مؤثر بناتا ہے اور ان کے حقوق کا ادراک کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرتا ہے۔
اس مشن میں ایچ آر سی پی کی چیئرپرسن حنا جیلانی، وائس چیئرمین سندھ قاضی خضر حبیب، کونسل ممبر سعدیہ بخاری اور سینئر کارکن امداد چانڈیو شامل تھے۔
ایچ آر سی پی کے شریک چیئرمین اسد اقبال بٹ کے ہمراہ ٹیم نے گھوٹکی، کندھ کھوٹ، جیکب آباد اور لاڑکانہ کا دورہ کیا تھا۔
مشن کے لیے خاص طور پر تشویش کی بات یہ تھی کہ گزشتہ سال کے تباہ کن سیلاب سے متاثر ہونے والے خاندانوں کو ابھی تک اپنے گھروں کی تعمیر نو کے لیے معاوضہ یا امداد نہیں ملی ہے۔
مشن کو ضلعی کمشنر قمبر شہدادکوٹ نے بتایا کہ صرف اسی علاقے میں ایک لاکھ 42 ہزار سے زیادہ مکانات تباہ ہو چکے ہیں۔
مزید برآں تباہ شدہ اسکولوں کی تعداد نے بچوں کی تعلیم میں شدید خلل ڈالا ہے اور حالات میں بہتری کے بہت کم آثار ہیں۔
مشن کو یہ جان کر تشویش ہوئی کہ گھوٹکی میں اغوا برائے تاوان کے کم از کم 300 واقعات رپورٹ ہوئے جن کا بنیادی ہدف خواتین اور بچے تھے۔
پولیس رپورٹوں سے پتا چلتا ہے کہ ایسے واقعات میں فوجی درجے کے ہتھیار استعمال کیے گئے ہیں جو مبینہ طور پر بلوچستان سے حاصل کیے گئے ہیں اور اس طرح صوبائی سرحدی سلامتی پر سوالیہ نشان لگ رہے ہیں۔
سرحد کے ساتھ لگنے والی سیکڑوں چیک پوسٹوں کے پیش نظر رہائشیوں نے سیکیورٹی فورسز کی ملی بھگت کا بھی الزام لگایا ہے۔
کندھ کوٹ اور جیکب آباد کے دورے کے دوران، جو صوبے میں غیرت کے نام پر قتل کی سب سے زیادہ شرح کا سبب بنتا ہے، مشن یہ جان کر حیران رہ گیا کہ متاثرین میں کم عمر لڑکیاں، شادی شدہ خواتین اور یہاں تک کہ بوڑھی خواتین بھی شامل ہیں۔
متاثرین کے اہل خانہ نے تحقیقات کے ساتھ ساتھ عدالتی کارروائیوں میں بے وجہ طویل تاخیر کی بھی شکایت کی۔
مشن کو یہ جان کر تشویش ہوئی کہ گھوٹکی، کندھ کوٹ اور لاڑکانہ میں مقیم صحافیوں کو جان سے مارنے کی دھمکیوں، اغوا، حملہ اور من گھڑت ایف آئی آر کی صورت میں انتقامی کارروائی کے خوف سے بااثر افراد کے خلاف رپورٹنگ کرنا مشکل ہوگیا۔