سچ خبریں:ریاض کے حکمرانوں نے اپنے نظریے کو وسعت دینے اور مغرب کے منصوبوں اور پروگراموں کے مطابق ڈھالنے کے ساتھ ساتھ اندرونی بحرانوں کا سامنا کرتے ہوئے آگے بڑھنے کے لیے اپنے لیے ایک پیچیدہ خارجہ پالیسی کا تعین کیا ہے۔
حالیہ برسوں میں تخت کے قریب آنے کے بعد، سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے خود کو ایک اصلاح پسند کے طور پر پیش کرنے کی سرتوڑ کوشش کی ہے، یہ بہانہ کیا ہے کہ سعودی عرب کی روایتی روشیں ختم ہو چکی ہیں اور اب وہ اس ملک کے عوام کو ایک اصلاح پسند کے طور پر پیش کریں گے، آج کے بعد انہیں آزادی بیان اور آزادی عمل دونوں مسیر ہوں گی، وہ بڑے منصوبوں میں جدید یورپی زندگی کی مثالیں پیش کر کے اپنے آپ کو ایک نو لبرل کے طور پر متعارف کرانے کی کوشش کر ہے لیکن اس حقیقت سے قطع نظر کہ آمرانہ طرز عمل ان کی روح کے ساتھ ملا ہوا ہے، ایک ایسا طرز عمل جو گزشتہ برسوں کے دوران ہر جگہ دیکھنے کو ملا ہے جیسے کی سزاؤں میں اضافہ ، سیاسی مخالفین کی پھانسی، مذہبی اور دینی اقلیتوں کی آزادیوں کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزی، غیر ملکی تارکین وطن، خواتین کے حقوق کی پامالی، اور بدعنوانی کا عام ہونا دیکھنے کو مل رہا ہے۔
دوسری جانب ریاض کے حکام نے اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد سعودی عرب میں اپنی غیر جمہوری حکمرانی کی بقا کے لیے مغربی طاقتوں کی حمایت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ وہابی اور تکفیری نظریات کو فروغ دینے کی بھرپور کوششوں پر رکھی ہے، اس نقطہ نظر کی بنیاد پر سعودی حکام دیگر علاقائی اور بین الاقوامی حکومتوں کے اندرونی معاملات میں وسیع پیمانے پر مداخلت کرتے ہیں یہاں تک کہ یمن سمیت بعض ملکوں میں جنگ بھی چھیڑ رکھی ہے،اس تجزیے میں ہم سعودی حکومت کی متضاد پالیسیوں کی جہتیں اور سعودی حکمرانوں کے طرز عمل میں انسانی اصولوں کی وسیع پیمانے پر پامالی کی تفصیلات کا جائزہ لیں گے۔
بین الاقوامی کشیدگی میں سعودی عرب کا کردار
سعودی عرب کو عرصہ دراز سے خطے میں امریکی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کا اہم ایجنٹ اور آلہ کار سمجھا جاتا رہا ہے جس امریکہ کی جانب سے شام، مصر، لبنان اور بعض دیگر اسلامی ممالک میں تنازعات کی ذمہ داری ریاض اور بعض دیگر ممالک کو سونپی گئی ہے،کم از کم پچھلی دہائی کے دوران سعودی عرب نے یہ ظاہر کیا ہے کہ اس کے پاس تکفیری دہشت گرد گروہ القاعدہ کی حمایت کے پس منظر کی بنیاد پر خطے میں دہشت گردی کو منظم کرنے کی طاقت ہے جس کے لیے اس کے پاس کافی مالی اور نظریاتی وسائل ہیں جو ان گروہوں کی سرگرمیوں کو ہدایت دینے میں استعمال ہوتے ہیں، اسی طرح امریکہ کے منظور نظر کچھ علاقائی معاملات کو ریاض کے انتظامی طریقہ کار کے سپرد کرنا اس ملک کے خارجہ پالیسی کے نظریہ سازوں کے نقطہ نظر سے منطقی معلوم ہوتا ہے۔
دوسری طرف شاہ عبداللہ کے دور میں نسبتاً پختہ ہونے والی سعودی عرب کی خارجہ پالیسی شاہ سلمان کے عروج اور اقتدار کے تمام شعبوں میں محمد بن سلمان جیسے لوگوں کے غلبہ کے ساتھ جارحانہ ہو چکی ہے، اس طرح کہ ان سالوں کے دوران ریاض نے اپنی اعلان کردہ پالیسیوں کے برعکس اپنے پڑوسیوں بشمول قطر، یمن، سوڈان، لبنان اور شمالی افریقی ممالک کے خلاف سخت اور انتہائی حکمت عملی اختیار کی ہے،ظاہر ہے کہ ان پالیسیوں کے لیے امریکہ سے بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی خریداری اور اس ملک کو تاوان کی ادائیگی کی ضرورت ہوتی ہے، ان تمام معاملات نے امیر سعودی ملک کے مالی وسائل کو خطرہ لاحق کر دیا ہے اور اس ملک کے بجٹ خسارے کو مزید تیز کر دیا ہے۔
دہشت گردی کے نقطہ نظر کے ساتھ وہابی عقائد کی ہم آہنگی اور سعودی حکومت کے مغرب پر انحصار نے دہشت گرد گروہوں کی ایجاد اور حمایت کو تیل کی پیداوار کے بعد سعودیوں کی دوسری بڑی سرگرمی بنا دیا ہے،ریاض سے وابستہ دہشت گرد چینلز کی فکری بنیاد بنیادی طور پر وہابیت کے عقلی رجحان کی طرف لوٹتی ہے، جو خطے میں دہشت گردی کی سرگرمیوں کا بنیادی حامی اور نظریاتی فیڈر ہے، یہی وجہ ہے کہ خطے میں مزاحمت کے محور کی بڑھتی ہوئی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے سعودی عرب کے اہم محرکات میں سے ایک دہشت گرد تنظیموں کی تشکیل اور خطے میں ریاستی دہشت گردی کی حمایت ہے۔
کشیدگی پیدا کرنے کے سعودیوں کے اعترافات
سعودی لیڈروں کے ہاتھوں ہونے والی دہشت گردانہ کاروائیوں کا دعویٰ صرف آل سعود حکومت کے مخالفین کا نہیں ہے بلکہ اس حکومت کے حامی اور بعض علاقائی رہنما بھی کھلے دل سے اس مسئلے کا اعتراف کرتے ہیں،وکی لیکس کی شائع کردہ دستاویزات میں سے ایک کے مطابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے اعتراف کیا کہ سعودی عرب دنیا میں دہشت گرد گروپوں کی مالی معاونت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اس دستاویز میں کلنٹن نے پاکستان میں القاعدہ، طالبان اور لشکر طیبہ کو سعودی حمایت یافتہ دہشت گرد گروہ قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ سعودی دنیا میں دہشت گردوں کی مالی معاونت کے سب سے مضبوط حامی ہیں، اس دستاویز سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کلنٹن نے سعودی حکام سے اس مسئلے کو ایک سٹریٹجک ترجیح کے طور پر حل کرنے کو کہا جسے ایک موجودہ اور جاری چیلنج سمجھا جاتا ہے۔ دوسری جانب عراقی حکومت نے کئی سال پہلے اور اس ملک میں سعودی اقتصادی سرگرمیوں میں شدت آنے سے قبل اس ملک میں ریاض کی تخریبی سرگرمیوں پر سرکاری طور پر تنقید کی تھی اور ان سرگرمیوں کو بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
عراق میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے سعودی عرب کی حمایت
پچھلی دہائیوں کے دوران خاص طور پر عراق پر امریکہ کے قبضے کے بعد سعودی عرب نے اس ملک میں اقتصادی اور ثقافتی سرگرمیوں کی صورت میں سیاسی پیش رفت کے میدان میں کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے،ریاض، جس نے پہلے عراق کو ہارڈویئر ٹولز اور دہشت گردی کی حمایت سے نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی، گزشتہ برسوں کے دوران، خاص طور پر اس ملک میں پارلیمانی انتخابات کے انعقاد کے دوران یہاں کے سیاسی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کے لیے اپنے تیل کے ڈالر اس ملک کو بھیجے تاکہ اس ملک میں عراق میں اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ کو محفوظ بنایا جا سکے۔
عراق میں سعودی مداخلت کی تاریخ
حالیہ برسوں میں عراق میں بنیادی تبدیلیاں دیکھنے کو ملی ہیں، جن میں امریکی قبضے کا خاتمہ اور اس ملک میں داعش کی دہشت گردی کا عروج و زوال شامل ہے، اس مرحلے پر خلیج فارس کے ممالک بالخصوص ریاض نے اپنے آپ کو عراق میں امریکی مداخلت کے امریکی اصول کے نمائندے اور آلۂ کار ہونے کا ثبوت دیا، دوسری طرف واشنگٹن جس نے سابق امریکی صدر براک اوباما کے دور صدارت کے آخری سالوں میں عراق کے میدان سے خود کو تھوڑا سا الگ کر لیا تھا، ڈونلڈ ٹرمپ کے دور صدارت میں ایک بار پھر طاقت کے ساتھ میدان میں اتر آیا، یہ مسئلہ خطے میں کے آل سعود کے ذریعہ امریکی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی حکمت عملی کو واضح کرتا ہے ، دوسری جانب سعودی عرب جو یمن کی جنگ سمیت مختلف معاملات میں ناکامی کی وجہ سے خطے میں اپنے اثر و رسوخ اور موجودگی کو متزلزل دیکھ رہا ہے، اسے خطے میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے عراق میں اثر و رسوخ کی ضرورت ہے۔
یاد رہے کہ عراقی عوام کے لیے سعودیوں کی بظاہر مہربانی حالیہ برسوں میں سامنے آئی ہے جب کہ امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے شائع کردہ دستاویزات کے مطابق عراق کو صدام کے ہاتھوں سے آزاد کرانے کے بعد سعودی عرب نے اس ملک کی حکومت کو کمزور کرنے کے لیے القاعدہ کے حملوں کی مالی معاونت کی، 9 اپریل 2003 کو صدام کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے، وہابی گروہوں اور ان سے منسلک تنظیموں کے رہنماؤں نے، جنہیں قابض افواج کی کھلی حمایت بھی حاصل تھی، نے اپنے بیانات سے سلفی ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جس میں عراق کے خلاف اشتعال انگیزی کی لہریں پیدا ہوئیں،عراقی سنیوں کے دفاع کے بہانے وہ فرقہ وارانہ اور فتنہ انگیز زبان سے اس ملک میں تشدد کی فضا کو عام کرتے ہیں یہاں تک کہ امریکی قابضین کے عراق سے نکلنے کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا اور اس دوران لڑنے والی قوتوں کو متحرک کرنا، تکفیری فتوے جاری کرنا اور القاعدہ سے وابستہ گروہوں کے لیے مالی معاونت کے ہیڈکوارٹر کی تشکیل عراق منتقل کی گئی جس کے نیتجہ ہزاروں کی تعداد میں عراقی فوجی اور عام شہریوں کا قتل عام کیا گیا۔