اسلام آباد:(سچ خبریں) پنجاب، خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی ہونے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے، 1988 میں بھی عدالت کے حکم پر انتخابات آگے بڑھائے گئے تھے۔
جسٹس امین الدین اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے 5 رکنی بینچ سے علیحدہ ہونے کے بعد چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کررہا ہے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی اور عرفان قادر کمرہ عدالت میں موجود ہیں، علاوہ ازیں پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل علی ظفر، پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک، سیکٹری دفاع، سیکریٹری الیکشن کمیشن اور ڈپٹی سیکریٹری داخلہ بھی عدالت میں موجود ہیں۔
سماعت کے آغاز پر فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے بائیکاٹ ختم کردیا؟ فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ میں نے کوئی بائیکاٹ نہیں کیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پھر کس نے بائیکاٹ کیا؟
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ آپ کیسے ایک طرف بائیکاٹ اور دوسری طرف سماعت کا حصہ بھی بن رہے ہیں؟ فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ بینچ کے دائرہ اختیار پر تحفظات ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ گزشتہ 48 گھنٹے سے میڈیا کہہ رہا ہے کہ اعلامیہ کے مطابق سیاسی جماعتیں بینچ پر عدم اعتماد کر رہی ہیں، ہم پر اعتماد نہیں ہے تو دلائل کیسے دے سکتے ہیں، اگر اعلامیہ واپس لیا ہے تو آپ کو سن لیتے ہیں۔
چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کیا کہ کیا آپ کارروائی کا حصہ بننا چاہتے ہیں، فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ جی کارروائی کا حصہ ہیں، ہم نے تو بائیکاٹ کیا ہی نہیں تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اخبار میں تو کچھ اور لکھا تھا۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آپ ایک طرف بینچ پر اعتراض کرتے ہیں دوسری طرف کارروائی کا حصہ بھی بنتے ہیں، حکومتی اتحاد اجلاس کا اعلامیہ پڑھ کر سنائیں، جو زبان اس میں استعمال کی گئی ہے۔
کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ہمارے تحفظات بینچ پر ہیں۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہمیں درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر تحفظات ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر بائیکاٹ کرنا ہے تو عدالتی کاروائی کا حصہ نہ بنیں، بائیکاٹ نہیں کیا تو لکھ کر دیں۔
اس پر مسلم لیگ (ن) کی جانب سے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ وکالت نامہ واپس لینے تک وکیل دلائل دے سکتے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ وکالت نامہ دینے والوں نے ہی عدم اعتماد کیا ہے، اس پر اکرم شیخ نے کہا کہ وکیلوں کا عدالت آنا ہی اعتماد ظاہر کرتا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ کو کیا ہدایت ملی ہیں، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ حکومت عدالت کا بائیکاٹ نہیں کرسکتی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سنجیدہ اٹارنی جنرل سے ایسی ہی توقع تھی، اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت آئین کے مطابق چلتی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ درخواست میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا ہے، صدر کو خیبرپختونخوا میں تاریخ دینے کی بھی استدعا کی گئی ہے، درخواست کی بنیاد یکم مارچ کا عدالتی فیصلہ ہے، فیصلے میں عدالت نے پنجاب کے لیے صدر اور خیبرپختونخوا کے لیے گورنر کو تاریخ دینے کا کہا تھا، گورنر خیبرپختونخوا کے نے درخواستیں دائر ہونے تک کوئی تاریخ نہیں دی تھی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سوال اٹھایا تھا کہ الیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی تاریخ کیسے دے سکتا ہے؟ قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا، عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے، 1988 میں بھی عدالت کے حکم پر انتخابات آگے بڑھائے گئے تھے، عدالت زمینی حقائق کا جائزہ لے کر حکم جاری کرتی ہے، جس حکم نامے کا ذکر کرر ہے ہیں اس پر عمل ہو چکا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اصل معاملہ الیکشن کمیشن کے حکم نامے کا ہے، عدالتی حکم الیکشن کمیشن پر لازم تھا، الیکشن کمیشن کا حکم برقرار رہا تو باقی استدعائیں ختم ہو جائیں گی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پہلے راؤنڈ میں 9 رکنی بینچ نے مقدمہ سنا تھا، 21 فروری کو سماعت کا حکم نامہ آیا، 2 ججز کے اختلافات کی تفصیلات سامنے آ چکی ہیں، 2 ججز نے پہلے دن درخواستیں خارج کر دی تھیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک جج نے درخواست خارج کی تھی، جسٹس اطہر من اللہ نے شاید نوٹ میں درخواست خارج کرنے کا نہیں لکھا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے جسٹس اطہر من اللہ سے اتفاق کیا تھا، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کا نقطہ نظر سمجھ گئے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کے تفصیلی نوٹ کتنے رکنی بینچ کے تھے؟ کتنے رکنی بینچ نے فیصلہ دیا تھا؟ 27 فروری کو 9 رکنی بینچ نے ازسرنو تشکیل کیلئے معاملہ چیف جسٹس کو بھیجا تھا۔
اس دوران عرفان قادر نے اٹارنی جنرل کے کان میں لقمہ دیا تو جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ کیا عرفان قادر اٹارنی جنرل کو بچانے آئے ہیں؟
عرفان قادر نے کہا کہ 15 سیکنڈز کا معاملہ ہے، اس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آپ 3 منٹ سے 15 سیکنڈ پر آگئے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ جب بینچ دوبارہ تشکیل ہوا تو پانچ رکنی تھا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا چیف جسٹس کوئی بھی پانچ ججز شامل نہیں کرسکتے تھے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آپ کی رائے سے اتفاق کرتا ہوں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چیف جسٹس پہلے والے اراکین شامل کرنے کے پابند نہیں تھے، جس عدالتی فیصلے کا آپ حوالہ دے رہے ہیں وہ اقلیتی ہے، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یکم مارچ کو بھی کوئی عدالتی حکم نہیں تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کہنا چاہتے ہیں 5رکنی بینچ بنا نہیں تھا، ججز میں ہم آہنگی سپریم کورٹ کے لیے بہت اہم ہے، ججز کے بہت سے معاملات آپس کے ہوتے ہیں، عدالتی کارروائی پبلک ہوتی ہے لیکن ججز کی مشاورت نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 4/3 کے فیصلے والی منطق مان لی تو معاملہ اس 9 رکنی بینچ کے پاس جائے گا، فیصلہ یا 9 رکنی بینچ کا ہوگا یا پانچ رکنی بینچ کا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تفصیلی اختلافی نوٹ بینچ کے ازسرنو تشکیل کا نقطہ شامل نہیں، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ نوٹ کے مطابق بینچ کی ازسرنو تشکیل انتظامی اقدام تھا، نوٹ کے مطابق جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی نے سماعت سے معذرت کی تھی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نوٹ کے مطابق چار ججز نے خود کو بینچ سے الگ کیا، بہتر طریقہ یہ تھا کہ لکھتے کہ 4 ججز کو بینچ سے نکالا گیا، 9 رکنی بینچ کے فیصلے میں کہیں نہیں لکھا کون رضاکارانہ الگ ہورہا ہے، کسی نے بینچ سے الگ ہونا ہو تو جوڈیشل آرڈر لکھا جاتا ہے، کوئی شق نہیں کہ جج کو بینچ سے نکالا نہیں جاسکتا، عدالت بینچ کی ازسرنو تشکیل کا حکم دے تو اسے نکالنا نہیں کہتے،۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ازسرنو تشکیل میں تمام پانچ نئے ججز آجاتے تو کیا ہوتا؟ کیا نیا بینچ پرانے دو ججز کے فیصلوں کو ساتھ ملا سکتا ہے؟ نیا بینچ تشکیل دینا انتظامی نہیں جوڈیشل حکم تھا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 2 ججز نے جو رائے دی تھی اسے الگ نہیں کیا جاسکتا۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے خود کہا وہ اپنی شمولیت چیف جسٹس پر چھوڑتے ہیں، بینچ کا کوئی رکن بھی نہ ہو تو سماعت نہیں ہوسکتی، پانچ رکنی بینچ نے دو دن کیس سنا، کسی نے کہا دو ارکان موجود نہیں،کیا کسی نے یہ کہا کہ بینچ سات رکنی ہے؟ پہلی سماعت پر کوئی جج درخواست خارج کردے پھر بینچ میں نہ بیٹھے تو فیصلہ نیا بینچ کرے گا؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دو ججز کی رائے کے بعد نیا بینچ بنا اور ازسرِنو سماعت ہوئی، بینچ ارکان نے دونوں ججز کے رکن ہونے کا نقطہ نہیں اٹھایا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 4 آرا کے مطابق درخواستیں خارج ہوئی ہیں، اس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آپ کا نقطہ سمجھ گئے، اگلے نقطے پر آئیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ زیر حاشیہ میں بھی لکھا کہ 2 ججز کی آرا ریکارڈ کا حصہ ہیں فیصلے کا نہیں، ریکارڈ میں تو متفرق درخواستیں اور حکمنامے بھی شامل ہوئے ہیں، ابھی تک آپ ہمیں اس نقطے پر قائل نہیں کرسکے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ اکثریت میں رائے کس کی ہے، حل یہ ہے کہ جنہوں نے پہلے مقدمہ سنا وہ اب بینچ سے الگ ہوجائیں، اس پر جسٹس منیب نے ریمارکس دیے کہ آپ کا نقطہ نوٹ کرلیا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ رجسٹرار آفس نے ایک سرکلر جاری کیا ہے، سرکلر جسٹس قاضی فائز عیسی کے 29 مئی کے فیصلے کے بعد جاری کیا گیا، عدالتی حکم یا فیصلے کو انتظامی سرکلر سے ختم نہیں کیا جا سکتا ہے، عدالتی حکم نظر ثانی یا کالعدم ہونے پر ہی ختم ہوسکتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سرکلر سے کسی فیصلے کو واپس نہیں لیا گیا، فیصلے کیں انتظامی ہدایات دی گئی تھیں،184/3 کے مقدمات کی سماعت روکنے کے معاملے پر سرکلر آیا ہے، سرکلر میں لکھا ہے کہ پانچ رکنی بنچ کے فیصلے کی خلاف ورزی کی گئی تھی، مقدمات سماعت کیلئے مقرر نہ کرنے کے انتظامی حکم پر سرکلر آیا ہے، جسٹس فائز عیسی کے فیصلے میں کوئی واضح حکم نہیں دیا گیا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ184/3 کے تحت درخواستوں کے حوالے سے رولز موجود ہیں، ازخود نوٹس پر سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کا فیصلہ موجود ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فیصلہ میں لکھا ہے کہ مناسب ہوگا کہ 184/3 کے مقدمات کی سماعت روکی جائے، 29 مارچ کے فیصلہ میں ہدایت نہیں بلکہ خواہش ظاہر کی گئی ہے، عوام کے مفادات میں مقدمات پر فیصلے ہونا ہیں ناں کہ سماعت موخر کرنے سے، فیصلہ میں تیسری کیٹگری بنیادی حقوق کی ہے، بنیادی حقوق تو 184/3 کےہر مقدمےمیں ہوتے ہیں۔
جسٹس منیب نے استفسار کیا کہ کیا یہ آئینی درخواست نہیں ہےجس کے رولز بنےہوئے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ موجودہ مقدمہ میں بنیادی حقوق کا زکر ہے، موجودہ کیس تیسری کیٹگری میں آسکتا ہے، رولز بننے تک سماعت مؤخر کی جائے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ آئینی درخواست کے رولز بنے ہوئے ہیں تو کاروائی کیسے موخر کریں؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی فیصلہ کو پھر بھی سرکولر کے ذریعے ختم نہیں کیا جاسکتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت نےرواں سال میں پہلا سوموٹو نوٹس لیا تھا، دو اسمبلیوں کے سپیکرز کی درخواستیں آئی تھیں، اسپیکر ایوان کا محافظ ہوتا ہے، ازخود نوٹس کے لیے بینچ کا نوٹ بھی پڑا ہوا تھا، ازخودنوٹس لینے میں ہمیشہ بہت احتیاط کی ہے، اس بات سے متفق نہیں کہ یہ مقدمہ دیگر 184/3 کے مقدمات سے مختلف ہے، جن کے رولز بنے ہیں ان مقدمات پر کیسے کاروائی روک دیں؟ 184/3 کے دائرہ اختیار پر بہت سخت طریقہ کار بنایا ہوا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ایک جانب کہتے ہیں فل کورٹ بنائیں ساتھ کہتے ہیں سماعت نہ کریں، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ فل کورٹ کی استدعا جمعہ کو مسترد ہوچکی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ پہلے طے تو کر لیں سماعت ہوسکتی ہے یا نہیں، آپ کا مؤقف مان لیں تو فل کورٹ بھی سماعت نہیں کرسکتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فل کورٹ کی استدعا فی الوقت مسترد کی تھی، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ فیصلے پر دستخط کرنے والے جج نے خود کو بینچ سے الگ کرلیا، کیسے ہوسکتا ہے فیصلہ لکھنے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مقدمہ سنیں؟ جسٹس امین الدین خان نے فیصلے پر صرف دستخط کیے تھے، سماعت سے معذرت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلہ ہوگا، سماعت سے انکار تو فرض نہیں کیا جاتا، یہ جوڈیشل آرڈر ہوتا ہے، تمام 15 ججز مختلف آرا اپنانے پر مقدمہ نہیں سن سکتے، آپ نے معاملہ فہم ہوتے ہوئے دوبارہ فل کورٹ کی استدعا نہیں کی، آپ کی زیادہ سے زیادہ استدعا فل لارجر بینچ کی ہوسکتی ہے، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ لارجر بینچ کی استدعا آگے جاکر کروں گا۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ کسی جج کو بینچ سے نکالا گیا نہ کوئی رضاکارانہ الگ ہوا، 9 ارکان نے چیف جسٹس کو معاملہ بھجوایا، 27 فروری کے 9 ججز کے حکم نامے سے دکھائیں بینچ سے کون الگ ہوا؟ عدالتی ریکارڈ کے مطابق کسی جج نے سماعت سے معذرت نہیں کی، جسٹس فائز عیسیٰ کا حکم خوبصورت لکھا گیا ہے، فل کورٹ میٹنگ فائدہ مند ہو سکتی ہے لیکن فل بینچ نہیں، گزشتہ 3 روز میں سینیئر ججز سے ملاقاتیں کی ہیں، لارجر بینچ کے نکتے پر دلائل دینا چاہیں تو ضرور دیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو ججز 9 رکنی بینچ کا حصہ نہیں تھے ان پر مشتمل بینچ بنایا جائے، 3/2 اور 3/4 کا فیصلہ باقی 2 ججز کو کرنے دیا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک فیصلہ 3 رکنی اکثریت نے دیا، ایک 2 رکنی اقلیت نے، بنیادی اصول مقدمہ کی سماعت ہے، سنے بغیر فیصلہ محدود نوعیت کا ہی ہوسکتا ہے، سماعت کے بعد کیے گئے فیصلے کا ہی وجود ہوتا ہے، کورٹ فیس ادا نہ کرنے پر بھی تو مقدمہ خارج ہوجاتا ہے، نظرثانی اکثریتی فیصلے کی ہوتی ہے، جن ججز کے نوٹ کا حوالہ دے رہے ہیں کیا وہ 5 رکنی بینچ میں تھے؟
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ عدالتی حکم کے بغیر کوئی فیصلہ قابل عمل نہیں ہوتا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ 2 الگ الگ بینچز نے الگ الگ کارروائی کی تھی۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کی تعریف کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ احترام کے دائرے میں رہتے ہوئے بہترین دلائل دے رہے ہیں، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ صورتحال سب کے لیے ہی مشکل ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری خزانہ کہاں ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سیکریٹری خزانہ رپورٹ کے ہمراہ عدالت میں موجود ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اصل مسئلہ سیکیورٹی ایشو ہے، دونوں افسران کو سن کر بھیج دیتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ حساس معاملہ ہے، سیکیورٹی معاملات پر اِن کیمرا سماعت کی جائے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ فائلز دے دیں ہم جائزہ لے لیتے ہیں، فورسز کا معاملہ صرف آرمی کا نہیں بلکہ نیوی اور ائیر فورس کا بھی ہے، بری فوج مصروف ہے تو نیوی اور ائیر فورس سے مدد لی جاسکتی ہے، الیکشن کمیشن کہتا ہے 50 فیصد پولنگ اسٹیشنز محفوظ ہیں، فوج میں ہر یونٹ یا شعبہ جنگ کیلئے نہیں ہوتا، عدالت نے وہ کام کرنا ہے جو کھلی عدالت میں ہو، کوئی حساس چیز سامنے آئی تو چیمبر میں سن لیں گے، کوئی اکر کہے تو صحیح کہ کتنے سیکیورٹی اہلکاروں کی ضرورت ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ تمام چیزیں ریکارڈ پر موجود ہیں، الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں لچھ وجوہات بتائی ہیں۔
دوران سماعت سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمود الزمان روسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس نے اُن سے استفسار کیا کہ حساس معلومات نہیں لیں گے مجموعی صورتحال بتا دیں، فی الحال پنجاب کا بتائیں کیونکہ خیبرپختونخوا میں ابھی تاریخ ہی نہیں، کیا پنجاب میں سیکورٹی حالات سنگین ہیں۔
سیکریٹری دفاع نے عدالت کو آگاہ کیا کہ پنجاب میں سیکیورٹی حالات سنگین ہیں، کھلی عدالت میں تفصیلات نہیں بتا سکتا، نہیں چاہتے معلومات دشمن تک پہنچیں۔
اس دوران عدالت نے پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل علی ظفر کو روسٹرم پر بلا لیا، چیف جسٹس نے اُن سے استفسار کیا کہ ِان چیمبر سماعت پر آپ کا کیا مؤقف ہے؟
بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ اہلکار دے دیں تو انتحابات کروا سکتے ہیں، سیکیورٹی اہلکار صرف ایک دن کے لیے دستیاب ہو سکتے ہیں، سیکیورٹی کا ایشو رہے گا، آئینی ضرورت 90 دن کی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سیکیورٹی اہلکار کون دے گا؟ سوال یہ ہے کہ 8 اکتوبر کو کیسے سب ٹھیک ہو جائے گا؟ کیا الیکشن کمیشن کو کومبیٹ والے اہلکار درکار ہیں؟ اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ریٹائرڈ لوگوں کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔
سیکریٹری دفاع نے کہا کہ ریزور فورس موجود ہے جسے مخصوص حالات میں بلایا جاتا ہے، ریزور فورس کو بلانے کا طریقہ کار موجود ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سربمہر لفافوں میں رپورٹ فراہم کریں، جائزہ لے کر مواد واپس کر دیں گی، کوئی سوال ہوا تو اس کا جواب آپ سے لیں گیے، آپ چاہیں تو جواب تحریری بھی دے سکتے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ حساس معاملات کو سمجھتے ہیں، پبلک نہیں ہونے چاہئیں، نیشنل سیکیورٹی اہلکاروں، عوام کے لیے مشکلات پیدا نہیں کرنا چاہتے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ حساس ترین معلومات کا جائزہ میں بھی نہیں لینا چاہوں گا، اس مقدمے میں سیکیورٹی ایشو دیکھنا ضروری نہیں۔
سیکریٹری دفاع نے کہا کہ ریزرو فورس کی طلبی کے لیے وقت درکار ہوتا ہے، ریزرو فورس کی تربیت بھی کی جاتی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فوج کی بڑی تعداد بارڈرز پر بھی تعینات ہے، الیکشن ڈیوٹی کے لیےکومبیٹ اہلکاروں کی ضرورت نہیں ہوتی، الیکشن کل نہیں ہونے، پورا شیڈول آئے گا۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پیرا ملٹری فورسز، بحری اور ہوائی فورسز سے بھی معلومات لیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جن علاقوں میں سیکیورٹی صورتحال حساس ہے ان کی نشاندہی کریں، الیکشن کمیشن نے 45 فیصد پولنگ اسٹیشنز کو حساس قرار دیا ہے، جھنگ ضلع پہلے حساس ہوتا تھا اب نہیں، جنوبی پنجاب اور کچے کا علاقہ بھی حساس تصور ہوتا ہے۔
عدالت نے سیکریٹری دفاع سے ایک گھنٹے میں تحریری رپورٹ طلب کرلی، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جو زبانی بریفنگ دینا چاہتے ہیں وہ لکھ کر دے دیں۔ سیکریٹری دفاع نے رپورٹ جمع کروانے کے لیے کل تک کی مہلت مانگ لی جو عدالت نے منظور کرلی۔
دریں اثنا سیکریٹری خزانہ کی رپورٹ عدالت میں پیش کردی گئی، سیکریٹری خزانہ طبیعت ناساز ہونے کے باعث پیش نہیں ہوسکے، ایڈیشنل سیکریٹری خزانہ عامر محمود عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا یہ رپورٹ بھی حساس ہے؟، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سیکریٹری خزانہ کی رپورٹ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے تناظر میں ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئی ایم ایف پروگرام اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے، کرنٹ اکاؤنٹ اور مالی خسارہ کم کیا جارہا ہوگا، آمدن بڑھا کر اور اخراجات کم کر کے خسارہ کم کیا جاسکتا ہے، کون سا ترقیاتی منصوبہ 20 ارب روپے سے کم ہے؟ درخواست گزار کے مطابق ارکان کو 170 ارب روپے کا فنڈ دیا جارہا ہے، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ اکتوبر 2022 کی بات ہے۔
ایڈیشنل سیکریٹری خزانہ نے کہا کہ پی ایس ڈی پی کے تحت فنڈز پلاننگ کمیشن جاری کرتا ہے، ترقیاتی فنڈز پر کوئی کٹ نہیں لگایا گیا، 170ارب روپے جمع کرنے کے لیے نئے ٹیکس لگائے گئے۔
جسٹس منیب نے استفسار کیا کہ 20 ارب روپے دینے سے بجٹ پر کتنے فیصد فرق پڑے گا، کیا کھربوں روپے کے بجٹ سے 20 ارب روپے نکالنا ممکن نہیں؟ وزیر خزانہ کا بیان تھا کہ فروری میں 500 ارب روپے سے زائد کا ٹیکس جمع ہوا، اندازہ ہے کہ بجٹ خسارہ ابھی موجود ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پٹرولیم مصنوعات پر حکومت کو خسارہ 157ارب روپے تھا، خسارہ 177 ارب ہوجاتا تو کیا ہوجاتا، اس پر ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ خسارہ طے ہو چکا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا تنخواہوں میں کمی نہیں کی جا سکتی، ججز سے تنخواہیں کم کرنا کیوں شروع نہیں کرتے، قانونی رکاوٹ ہے تو عدالت ختم کردے گی، 5 فیصد تنخواہ 3 اقسام میں کاٹی جا سکتی ہے، الیکشن کمیشن کو بھی اخراجات کم کرنے کا کہیں گے، کون سا مالی امور کا ماہر عدالت کو بریف کرے گا۔
دریں اثنا الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر ڈائس پر آگئے، انہوں نے عدلات سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اگر عدالت اپنا ذہن بنا چکی ہے تو ہمیں بتادیں، ہمار مؤقف سن لیں پھر سیکرٹری سے بات کرلیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کو کس نے کہا ہم نے طے کرلیا ہے، عرفان قادر نے کہا کہ عدالت سوشل میڈیا پر چلنے والی باتوں کا بھی نوٹس لے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سوموٹو نہیں لیں گے، آپ درخواست دیں۔
اس دوران کمرہ عدالت میں موجود پی ٹی آئی رہنما اسد عمر نے کہا کہ پہلے 5 ماہ میں 5700 ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں، ٹوٹل بجٹ 9500 ارب روپے پر مشتمل ہے، آئی ایم ایف خسارے کا ٹارگٹ جی ڈی پی کے حساب سے طے کرتا ہے، 20 ارب روپے 0.02 فیصد زیادہ نہیں ہے، خسارے کا ٹارگٹ جی ڈی پی 4.97 فیصد ہے، 20 ارب روپے کا خسارے کے ٹارگٹ سے کوئی تعلق نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ریونیو بڑھانے میں زیادہ وقت لگے گا، کس شعبے سے اخراجات کم کیے جاسکتے ہیں؟
اسد عمر نے کہا کہ ترقیاتی اخراجات 700 ارب روپے ہیں، ابھی تک 450 ارب روپے خرچ ہونا باقی ہیں، حکومت نے 8 ماہ میں صرف 200 ارب روپے خرچ کیے ہیں،ترقیاتی اسکیموں کے لیے حکومت نے مزید 8 ارب روپے ترقیاتی اخراجات میں شامل کیے ہیں، کیسے ممکن ہے 700 ارب روپے کے بجٹ سے 21 ارب روپے نہ نکالے جاسکتے ہوں، آئینی تقاضا اہم ہے یا سڑکیں بنانا؟ اس سے بڑا کوئی مذاق نہیں ہو سکتا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن پہلے ہو جائیں تو پورا 450 ارب روپیہ بچ سکتا ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت ہچکچاہٹ کا شکار ہے، حکومت نے کہا کسی سے بات نہیں کریں گیے۔عدالت فیصلہ کرے، 450 ارب روپے خرچ نہ ہونے کیوجہ اخراجات میں کمی ہے، ترقیاتی اخراجات کم نہیں کرنے توغیر ترقیاتی اخراجات کم کر دیں۔
ایڈیشنل سیکریٹری خزانہ نے کہا کہ آپریشنل اخراجات اور تنخواہیں ہی غیر ترقیاتی اخراجات ہوتے ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت نے اخراجات کم کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آٸینی تقاضہ پورا کرنے کے لیے آرٹیکل 254 ہے، اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ مثال بن گئی تو ہمیشہ مالی مشکلات پر الیکشن نہیں ہوا کریں گے، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں پیسے رکھیں گے۔
دریں اثنا عدالت نے کیس کی سماعت میں ڈھائی بجے تک وقفہ کردیا، وقفے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو لیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ کوشش ہے اپنی بات مختصر رکھوں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کتنی دیر دلائل دیں گے، عرفان قادر نے جواب دیا کہ میں کوشش کروں گا 30 منٹ میں تک اپنی بات مکمل کرلوں۔
عرفان قادر نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اگر جج پر اعتراض ہو تو وہ بینچ سے الگ ہوجاتے ہیں، ایک طرف ایک جماعت دوسری طرف تمام جماعتیں ہیں، بینچ سے جانبداری منصوب کی جارہی ہے، پوری پی ڈی ایم ماضی میں بھی فل کورٹ کا مطالبہ کرچکی ہے، فل کورٹ پر عدالت اپنی رائے دے چکی ہے، پتہ پتہ بوٹا بوٹا باغ تو سارا جانے ہے، جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے، عدالت پر عدم اعتماد نہیں انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے، عدالت کا ایک فیصلہ پہلے ہی تنازع کا شکار ہے، فی الحال انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا، میری نظر میں انصاف نہیں ہو رہا، ممکن ہے کچھ غلط فہمی ہو، الیکشن کی تاریخ دینے کا فیصلہ الیکشن کمیشن پر چھوڑنا چاہیے، فیصلہ تین دو کا تھا یا 4/3 کا اس پر بات ہونی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 9 میں سے 4 ججز نے درخواستیں خارج کیں، 3 ججز نے حکم جاری کیا، یکم مارچ کا عدالتی حکم اقلیتی نوٹ تھا، عدالت اس تنازعہ کو حل کرنے کیلئے اقدامات کرے، فیصلے کی تناسب کا تنازعہ ججز کا اندرونی معاملہ نہیں ہے، درخواستیں خارج کرنے والے چاروں ججز کو بھی بینچ میں شامل کیا جائے، سرکولر سے عدالتی فیصلے کا اثر ذائل نہیں کیا جاسکتا، چیف جسٹس اپنے سرکولر پر خود جج نہیں بن سکتے، عوام کا عدلیہ پر اعتماد ہونا لازمی ہے، ایک گروپ کے بنیادی حقوق پر اکثریت کے حقوق کو ترجیح دینی چاہیے۔
عرفان قادر نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ قومی مفاد آئیں اور قانون پر عملدرآمد میں ہے، آئین میں 90 دن میں انتخابات ہونا الگ چیز ہے، ملک میں کئی سال سے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات اکٹھے ہوتے ہیں، ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ ہونا چاہئیں، ایک ساتھ انتخابات سے مالی طور پر بھی بچت ہو گی، قومی اسمبلی کے انتخابات میں بھی نگران حکومت ضروری ہے، صوبائی اسمبلی چند ماہ پہلے تحلیل ہوئی ہے دو سال پہلے نہیں، قومی مفاد آئیں اور قانون پر عملدرآمد میں یے، آئین میں 90 دن میں انتخابات ہونا الگ چیز ہے، ملک میں کئی سال سے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات اکٹھے ہوتے ہیں، ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ ہونا چاہئیں، ایک ساتھ انتخابات سے مالی طور پر بھی بچت ہو گی، قومی اسمبلی کے انتخابات میں بھی نگران حکومت ضروری ہے، صوبائی اسمبلی چند ماہ پہلے تحلیل ہوئی ہے دو سال پہلے نہیں۔
سماعت کے آغاز سے قبل اٹارنی جنرل آف پاکستان نے سپریم کورٹ میں متفرق درخواست دائر کی جس میں وفاقی حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی کی درخواست مسترد کرنے کی استدعا کی گئی۔
اٹارنی جنرل کی جانب سے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ یکم مارچ کا سپریم کورٹ کا فیصلہ اکثریت سے دیا گیا، تین رکنی بینچ متبادل کے طور پر تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت نہ کرئے، جسٹس قاضی فائز عیسی کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی درخواست مؤخر کی جائے۔
متفرق درخواست میں استدعا کی گئی کہ سپریم کورٹ کے جو ججز الیکشن کیس کو سن چکے ہیں انہیں نکال کر باقی ججز پر مشمتل بینچ بنایا جائے، جسٹس اعجاز الاحسن پہلے راؤنڈ میں الیکشن کا کیس سننے سے انکار کرچکے ہیں، پہلے راؤنڈ میں دیا گیا الیکشن کا فیصلہ چار تین اکژیت سے دیا گیا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس منیب اختر فیصلہ دینے والے بینچ کا حصہ تھے، یہ دونوں بھی اس کیس کو نہ سنیں۔
دریں اثنا سماعت کے آغاز سے قبل پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج میں سب سے پہلے چیف جسٹس سے استدعا کروں گا کہ پہلے اس درخواست کے قابل سماعت ہونے کے معاملے پر ہمیں سنا جائے، اس کے بعد میرٹ پر فیصلہ کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 10 اے کہتا ہے کہ عدالتی کارروائی اس وقت تک مکمل نہیں ہوگی جب تک تمام فریقین کو سنا نہیں جائے گا۔
رہنما مسلم لیگ (ن) محسن شاہ نواز رانجھا نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہاٹارنی جنرل نے عدالت میں درخواست دائر کی ہے، ججز ایک ایک کر کے بینچ سے علیحدگی اختیار کر رہے ہیں، گھر کے بڑوں کو مل کر بیٹھنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ لاڈلے بچے کو 2018 میں نقل کروا کر پاس کروایا گیا، ایک فرد کے لیے پاکستانی قوم کے ساتھ ظلم نہیں ہونا چاہیے، جس شخص کو پانچ پانچ مقدمات میں ایک ساتھ ضمانتیں دی جائیں، عوام سوال کرتے ہیں کہ لاڈلہ کون ہے۔
رہنما مسلم لیگ (ن) عطا تارڑ نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا سپریم کورٹ اس کیس میں سوموٹو نہیں لے سکتی، یہ معاملہ واپس ہائی کورٹ جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ کیس سننے والی 3 رکنی بینج کی قانونی حیثیت اس لیے نہیں ہے کیونکہ 4/3 سے کے فیصلے سے پچھلا کیس طے ہوچکا ہے، اس لیے یہ کارروائی آگے نہیں چل سکتی، یہ تحریری درخواست آج وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے سامنے جمع کروائی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ افسوسناک امر ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ کے جوڈیشل آرڈر کو انتظامی آرڈر کہا گیا، یہ بہت غلط روایت پڑ گئی ہے۔
پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج سپریم کورٹ کی تاریخ کا اہم ترین دن ہے، ایک طرف وہ طبقہ ہے جو سپریم کورٹ کو انڈر مائن کرنے ہر تلا ہوا ہے، ایک وہ طبقہ ہے جو انصاف کے لیے اعلی عدلیہ کے دروازے پر جمع ہے۔
انہوں نے کہا کہ بار ایسوسی ایشن کا موقف سامنے ہے، تحریک انصاف بڑا واضح موقف رکھتی ہے، آئین کے بغیر ملک نہیں چل سکتا، آج ذوالفقار علی بھٹو کے سو کالڈ جاں نشیں آئین توڑ رہا ہے، یہ فرق ہے بھٹو اور زرداری کی پیپلزپارٹی ہے۔
آج کی سماعت کی اہمیت کے پیش نظر سپریم کورٹ میں سیکیورٹی کے سخت اقدامات کیے گئے، کسی غیر متعلقہ شخص کو سپریم کورٹ میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی، اس حوالے سے اسلام آباد پولیس نے بھی خصوصی ہدایت جاری کی ہیں۔
ترجمان اسلام آباد کیپیٹل پولیس کے مطابق آج سپریم کورٹ آف پاکستان میں وہی افراد داخل ہوسکیں گے جن کے مقدمات زیرسماعت ہوں گے یا جن کو سپریم کورٹ انتظامیہ کی جانب سے اجازت نامہ جاری ہوگا۔
اسلام آباد پولیس کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جاری ہدایات میں واضح کیا گیا کہ قانون کا احترام سب پر لازم ہے اور اس کا نفاذ برابری کی سطح پر کیا جائے گا۔
ٹوئٹ میں شہریوں سے اپیل کی گئی کہ ریڈ زون میں تعینات پولیس اور دیگر معاون قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کریں، کسی بھی مشکوک سرگرمی کے متعلق اطلاع پکار 15 پر دیں۔ دریں اثنا گزشتہ شب سپریم کورٹ نے 31 مارچ کی عدالتی کارروائی کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے تحریر کردہ ایک صفحہ پر مشتمل شارٹ آرڈر میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل فار پاکستان کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے فنڈز اور سیکیورٹی کی عدم دستیابی بابت کی گئی شکایت پر جواب کی تیاری کا وقت دیا جاتا ہے، آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل دونوں صوبوں میں جنرل الیکشن کے انعقاد کے لیے فنڈز اور سیکیورٹی کی فراہمی کی یقین دہانی کے ساتھ پیش ہوں۔
عدالت عظمی نے اپنے حکم میں سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری خزانہ کو بھی آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں پیش ہو کر اپنا مؤقف دینے کی ہدایت کی۔
خیال رہے کہ 27 مارچ کو ہونے والی پہلی سماعت کے اختتام پر عدالت نے وفاق، پنجاب اور خیبرپختونخوا حکومت اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اگلے روز صبح ساڑھے 11 بجے تک جواب طلب کرکے سماعت ملتوی کردی تھی۔
سماعت کے بعد جاری ہونے والے تحریری حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات ملتوی کرنے کا آرڈر چیلنج کیا، پی ٹی آئی کے مطابق الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات ملتوی کرنے کا کوئی قانونی اور آئینی اختیار نہیں۔
تحریری حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ ’بروقت عام انتخابات کا ایمانداری، منصفانہ اور قانون کے مطابق انعقاد جمہوریت کے لیے ضروری ہے، انتخابات میں تاخیر شہریوں کے بنیادی آئینی حقوق متاثر کرنے کے مترادف ہے‘۔
سپریم کورٹ نے حکم نامے میں کہا کہ ’تمام فریقین کو نوٹس جاری کردیے گئے ہیں، الیکشن کمیشن درخواست میں اٹھائے گئے اہم قانونی اور حقائق پر مبنی سوالات کا جواب دے‘۔
28 مارچ کو سپریم کورٹ میں ہونے والی دوسریسماعت میں چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ ’کارروائی کو لمبا نہیں کرنا چاہتے، سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ آگے کر سکتا ہے یا نہیں، اگر الیکشن کمیشن کا اختیار ہوا تو بات ختم ہوجائے گی‘۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’انتخابات آگے کون لے جا سکتا ہے، یہاں آئین خاموش ہے، کیا پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم نہیں کرنی چاہیے؟‘
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’پارلیمنٹ ترمیم کر لے تو یہ سب سے اچھا ہو گا، سوال یہ ہے کہ ترمیم ہونے تک جو انتخابات ہونے ہیں ان کا کیا ہوگا‘۔دوران سماعت انتخابات کے انعقاد کے لیے فنڈز کی عدم دستیابی کا معاملہ زیر بحث آیا تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’انتحابات کرانے کے لیے مجھ سمیت دیگر افراد کی تنخواہوں پر کٹ لگا دیا جائے تو انتخابات جیسا اہم ٹاسک پورا کیا جاسکتا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’الیکشن کے لیے پورے بجٹ کی ضرورت ہی نہیں ہے، 20 ارب کا کٹ ہماری تنخواہوں پر بھی لگایا جاسکتا ہے، حکومت اخراجات کم کر کے 20 ارب نکال سکتی ہے‘۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا تھا کہ ’فوج کی نقل و حرکت پر بھی اخراجات ہوتے ہیں، کیا یہ ایسا مسئلہ ہے جسے حل نہیں کیا جاسکتا، دہشت گردی کا مسئلہ 90 کی دہائی سے ہے، کیا نوے کی دہائی میں الیکشن نہیں ہوئے، کئی سیاسی لیڈرز کی جانیں قربان ہوئی، پیپلز پارٹی کی سربراہ کی شہادت بڑا سانحہ تھا، ان تمام حالات کے باوجود انتحابات ہوتے رہے ہیں، دوسری جنگ عظیم میں بھی انتحابات ہوئے تھے‘۔
29 مارچ کو سپریم کورٹ میں ہونے والی تیسری سماعت میں جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے تھے کہ 4 ججز نے پی ٹی آئی کی درخواستیں خارج کیں، ہمارے حساب سے فیصلہ 4 ججز کا ہے، چیف جسٹس نے آج تک آرڈر آف دی کورٹ جاری نہیں کیا، جب آرڈر آف دی کورٹ نہیں تھا تو صدر مملکت نے تاریخ کیسے دی اور الیکشن کمیشن نے شیڈول کیسے جاری کیا؟
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’قانون واضح ہے کہ اقلیتی فیصلے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، جسٹس منصور اور جسٹس جمال خان کا فیصلہ اقلیتی ہے، دونوں ججز کا احترام ہے مگر اقلیتی فیصلہ اکثریتی فیصلے پر غالب نہیں آسکتا‘۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’دہشت گردی کا مسئلہ تو ہے، 20 سال سے ملک میں دہشت گردی کا مسئلہ ہے، اس کے باوجود ملک میں انتخابات ہوتے رہے ہیں، 90 کی دہائی میں 3 دفعہ الیکشن ہوئے، 90 کی دہائی میں فرقہ واریت اور دہشتگردی عروج پر تھی، 58 (2) (بی) کے ہوتے ہوئے ہر 3 سال بعد اسمبلی توڑ دی جاتی تھی‘۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ سے رجوع کر کے قائل کرنا چاہیے تھا، آپ آج ہی عدالت کو قائل کرلیں، 8 اکتوبر کوئی جادوئی تاریخ ہے جو اس دن سب ٹھیک ہوجائے گا، 8 اکتوبر کی جگہ 8 ستمبر یا 8 اگست کیوں نہیں ہوسکتی؟
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے کیس کی مزید سماعت 30 مارچ بروز جمعرات کی صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی تھی جس کے دوران اٹارنی جنرل نے دلائل دینے تھے۔
سماعت کے اختتام پر سپریم کورٹ نے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کے لیے تحریک انصاف سے تحریری یقین دہانی مانگی تھی۔
تاہم 30 مارچ بروز جمعرات کو ہونے والی میں جسٹس امین الدین نے کیس سننے سے معذرت کرلی تھی جس کے بعد 5 رکنی بینچ ٹوٹ گیا تھا۔
بعدازاں عدالتی عہدیدار نے اعلان کیا تھا کہ کیس کی سماعت 4 رکنی بینچ 31 مارچ (جمعہ کو) کرے گا۔31 مارچ بروز جمعہ کو ہونے والی پانچویں سماعت کے دوران بینچ کے ایک اور جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے بھی معذرت کرلی جس کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کیس کی کارروائی آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا تھا۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل کی فل کورٹ بنانے کی درخواست فی الحال مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ سماعت کے بعد کچھ ملاقاتیں کروں گا، توقع ہے کہ پیر (آج) کا سورج اچھی نوید لے کر طلوع ہوگا۔
سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت پیر کو (آج) دن ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کرتے ہوئے سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری خزانہ کو طلب کر لیا تھا۔
واضح رہے کہ 23 مارچ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 30 اپریل بروز اتوار کو شیڈول پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات کو ملتوی کردیا تھا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات 8 اکتوبر کو ہوں گے، آئین کے تحت حاصل اختیارات استعمال کرتے ہوئے انتخابی شیڈول واپس لیا گیا اور نیا شیڈول بعد میں جاری کیا جائے گا۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ اس وقت فی پولنگ اسٹیشن اوسطاً صرف ایک سیکیورٹی اہلکار دستیاب ہے جبکہ پولیس اہلکاروں کی بڑے پیمانے پر کمی اور ’اسٹیٹک فورس‘ کے طور پر فوجی اہلکاروں کی عدم فراہمی کی وجہ سے الیکشن ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
فیصلے کی تفصیل کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ اس صورت حال میں الیکشن کمیشن انتخابی مواد، پولنگ کے عملے، ووٹرز اور امیدواروں کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے متبادل انتظامات کرنے سے قاصر ہے۔
مزید کہا گیا تھا کہ وزارت خزانہ نے ’ملک میں غیر معمولی معاشی بحران کی وجہ سے فنڈز جاری کرنے میں ناکامی‘ کا اظہار کیا ہے۔
الیکشن کمیشن نے نشان دہی کی تھی کہ الیکشن کمیشن کی کوششوں کے باوجود ایگزیکٹو اتھارٹیز، وفاقی اور صوبائی حکومتیں پنجاب میں آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد میں انتخابی ادارے کے ساتھ تعاون کرنے کے قابل نہیں تھیں۔
الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے ردعمل میں 23 مارچ کو پی ٹی آئی نے پنجاب میں 30 اپریل کو ہونے والے انتخابات ملتوی کرنے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا تھا۔
بعد ازاں 25 مارچ کو پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے انتخابات ملتوی کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی تھی۔
خیال رہے کہ مارچ میں ہی الیکشن کمیشن نے 30 اپریل بروز اتوار پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات پر پولنگ کے لیے شیڈول جاری کر دیا تھا۔
3 مارچ کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات 30 اپریل بروز اتوار کرانے کی تجویز دی تھی۔
ایوان صدر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ صدر مملکت نے تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن کی جانب سے تجویز کردہ تاریخوں پر غور کرنے کے بعد کیا۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات 90 روز کی مقررہ مدت میں کرائے جائیں، تاہم عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کو اجازت دی تھی کہ وہ پولنگ کی ایسی تاریخ تجویز کرے جو کہ کسی بھی عملی مشکل کی صورت میں 90 روز کی آخری تاریخ سے ’کم سے کم‘ تاخیر کا شکار ہو۔
سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ صدر مملکت اور گورنرز الیکشن کمیشن پاکستان کی مشاورت سے بالترتیب پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کی تاریخیں طے کریں گے۔
پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں بالترتیب 14 اور 18 جنوری کو تحلیل ہوئیں، قانون کے تحت اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد 90 روز کے اندر انتخابات کرانا ہوتے ہیں۔
اس طرح 14 اپریل اور 17 اپریل پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے عام انتخابات کے انعقاد کی آخری تاریخ تھی لیکن دونوں گورنرز نے الیکشن کمیشن کی جانب سے پولنگ کی تاریخ مقرر کرنے کی تجویز ملنے کے بعد انتخابات کی تاریخیں طے کرنے کے بجائے الیکشن کمیشن کو اسٹیک ہولڈرز سے مشورے کا کہا تھا۔