اسلام آباد:(سچ خبریں) سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے توشہ خانہ کیس میں وارنٹ گرفتاری جاری کرنے اور اسے برقرار رکھنے کا ماتحت عدالت کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کیسں کی سماعت کررہے ہیں۔ یاد رہے کہ توشہ خانہ کیس میں فرد جرم عائد کرنے کے لیے بار بار طلبی کے باوجود پیش نہ ہونے پر اسلام آباد کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ سیشن جج ظفر اقبال نے 28 فروری کو عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔
عدالت نے پولیس کو حکم دیا تھا کہ 7 مارچ تک عمران خان کو گرفتار کرکے عدالت کے سامنے پیش کیا جائے۔
جس کے خلاف گزشتہ روز (6 مارچ کو) عمران خان نے اپنے وکلا قیصر امام، بیرسٹر گوہر اور علی بخاری کے توسط سے سیشن عدالت میں درخواست دائر کر کے وارنٹ منسوخ کر نے کی استدعا کی تھی۔
تاہم عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کی اس استدعا کو مسترد کردیا تھا۔ ’ چنانچہ آج سابق وزیراعظم نے اپنے وکیل علی بخاری ایڈوکیٹ کےتوسط سے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی اور اسے آج ہی سماعت کے لیے مقرر کرنے کی استدعا بھی کی۔
درخواست میں عمران خان نے استدعا کی کہ ماتحت عدالت کی جانب سے 28 فروری کو وارنٹ گرفتاری جاری کرنے اور 6 مارچ کو اسے برقرار رکھنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے تا کہ وہ ٹرائل کورٹ میں پیش ہو کر اپنا دفاع کرسکیں۔
خیال رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ سنانے کے بعد کے ان کے خلاف فوجداری کارروائی کا ریفرنس عدالت کو بھیج دیا تھا جس میں عدم پیشی کے باعث ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے ہیں۔
گزشتہ برس اگست میں حکمراں اتحاد کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے لیے توشہ خانہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔
ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔
آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اپنایا تھا کہ 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہلی صرف عدلیہ کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کوئی عدالت نہیں۔
عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جواب کے مطابق یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔
بتایا گیا کہ یہ تحائف زیادہ تر پھولوں کے گلدان، میز پوش، آرائشی سامان، دیوار کی آرائش کا سامان، چھوٹے قالین، بٹوے، پرفیوم، تسبیح، خطاطی، فریم، پیپر ویٹ اور پین ہولڈرز پر مشتمل تھے البتہ ان میں گھڑی، قلم، کفلنگز، انگوٹھی، بریسلیٹ/لاکٹس بھی شامل تھے۔
جواب میں بتایا کہ ان سب تحائف میں صرف 14 چیزیں ایسی تھیں جن کی مالیت 30 ہزار روپے سے زائد تھی جسے انہوں نے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم کی ادا کر کے خریدا۔
اپنے جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں 4 تحائف فروخت کیے تھے۔
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2 کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے تحائف کی فروخت سے تقریباً 5 کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے، ان تحائف میں ایک گھڑی، کفلنگز، ایک مہنگا قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر 3 تحائف میں 4 رولیکس گھڑیاں شامل تھیں۔
چنانچہ 21 اکتوبر 2022 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔