اسلام آباد: (سچ خبریں) اسلام آباد میں جماعت اسلامی کے غزہ بچاؤ مارچ کے دوران دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر سابق سینیٹر مشتاق احمد اور منتظمین کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔
’ڈان نیوز‘ کے مطابق تھانہ کوہسار پولیس کی مدعیت میں سابق سینیٹر مشتاق احمد سمیت 300 مظاہرین کے خلاف درج مقدمے میں مارچ کے منتظمین پر دفعہ 144 کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا۔
متن میں کہا گیا کہ شرکا نے ساؤنڈ سسٹم پر حکومتی اداروں کے خلاف نعرے بازی کی، شرکا کو تنبیہ کی گئی کہ بغیر این او سی مظاہرے کی اجازت نہیں ہے، تاہم سابق سینیٹر مشتاق احمد نے اعلان کیا کہ ہم ہر صورت سفارت خانوں اور سیکرٹریٹ کے اہم دفاتر کا گھیراؤ کریں گے۔
مقدمے کے متن میں مزید کہا گیا کہ 300 سے زائد ڈنڈا بردار مرد و خواتین ڈی چوک کی جانب بڑھتے رہے، شرکا کی جانب سے پولیس کو دھمکایا گیا اور پتھراؤ کیا گیا، شرکا نے ایکسپریس چوک کو بند کرکے عام گاڑیوں اور ایمبولینس کو بھی روکے رکھا۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز 23 مارچ کو جماعت اسلامی نے دوپہر 2 بجے سے رات 8 بجے تک اسلام آباد کے ڈی چوک پر دھرنا دینے کا اعلان کیا تھا لیکن دھرنا شروع ہوتے ہی اسلام آباد پولیس نے مظاہرین کو گھیرے میں لے کر احتجاج سے روکنے کی کوشش کی۔
دوپہر دھرنے کا آغاز ہوا تو پولیس نے دھرنے کے شرکا محاصرہ کرتے ہوئے ساؤنڈ سسٹم کو حراست میں لے لیا اور مبینہ طور پر شرکا کو تشدد کا نشانہ بنایا۔
ڈی چوک کی جانب احتجاج پر پولیس نے جماعت اسلامی کے کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے احتجاج سے روکنے کی کوشش کی تھی اور مبینہ طور پر دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر سابق سینیٹر اور جماعت اسلامی کے رہنما مشتاق احمد خان کو گرفتار کرنے کی کوشش کی۔
پولیس نے اسلام آباد میں جماعت اسلامی کے رہنما مشتاق احمد کی گاڑی کو سڑک پر روک کر مبینہ طور پر انہیں گرفتار کرنے کی کوشش کی۔
اس موقع پر سینیٹر مشتاق اور پولیس کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی جبکہ پولیس اہلکار ویڈیو بنانے والے سینیٹر مشتاق کے بیٹے پر بھی برس پڑے۔