کوئٹہ: (سچ خبریں) اسلام آباد میں ایک ماہ طویل احتجاجی دھرنا دینے کے بعد تربت لانگ مارچ کے شرکا ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں جب کوئٹہ پہنچے تو بلوچستان یونیورسٹی کے قریب سریاب کے علاقے میں طلبہ اور خواتین سمیت ہزاروں افراد کے ہجوم نے مارچ کرنے والوں کا پرتپاک استقبال کیا۔
’ڈان‘ اخبار کی رپورٹ کے مطابق تربت لانگ مارچ کے شرکا کوئٹہ کے مضافات میں واقع ہزار گنجی پہنچے وہاں سے جلوس کی شکل میں بلوچستان یونیورسٹی کے علاقے کی جانب روانہ ہوئے جہاں ان کے استقبال کے لیے بڑا ہجوم جمع تھا۔
احتجاجی مارچ کا آغاز بالاچ مولا بخش کے مبینہ ماورائے عدالت قتل کے بعد تربت سے ہوا تھا جب کہ مبینہ قتل کا ذمہ دار محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کو قرار دیا گیا تھا، مظاہرین نے ملوث اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کیا۔
مظاہرین نے لانگ مارچ کا آغاز تربت سے کیا تھا اور مارچ کا آغاز کرتے ہوئے شرکا مختلف علاقوں سے ہوتے ہوئے اسلام آباد پہنچے تھے جہاں انہوں نے نیشنل پریس کلب کے سامنے دھرنا دیا جب کہ طلبہ، سیاسی کارکنوں اور انسانی حقوق کے محافظوں نے جبری گمشدگیوں کے خاتمے کے مظاہرین کے مطالبے کی حمایت کی۔
اس کے علاوہ، مظاہرین نےلاپتا افراد کے قتل کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کے قیام کا مطالبہ بھی کیا۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا ’اسلام آباد میں پولیس اہلکاروں نے ہماری خواتین کے سروں سے چادریں اتاریں اور ان پر تشدد بھی کیا۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ قوم کو اس گھناؤنے عمل کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے اور نہ ہی اپنے لاپتا بھائیوں کو بھولنا چاہیے جو کئی برسوں سے ریاستی جیلوں میں اذیتیں برداشت کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں پہلے دن سے معلوم تھا کہ ہمیں اسلام آباد سے انصاف نہیں ملے گا، ہمیں اسلام آباد سے توقعات تھیں اور نہ مستقبل میں ہوں گی۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ کچھ حکومتی رہنما جھوٹا دعویٰ کر رہے ہیں کہ دھرنا مذاکرات کے تحت ختم کیا، انہوں نے واضح کیا کہ دھرنا کسی قسم کے مذاکرات کی بنیاد پر ختم نہیں کیا گیا۔
انہوں نے عوام پر زور دیا کہ وہ 27 جنوری کو کوئٹہ میں ہونے والے اجتماع میں شامل ہوں۔
ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی اس جلسہ عام کے دوران اپنے اگلے لائحہ عمل کا اعلان کرے گی۔