اسلام آباد(سچ خبریں)سپریم کورٹ آف پاکستان نے منحرف اراکین کی نااہلی سے متعلق آرٹیکل 63-اے کی تشریح کے لیے صدر مملکت کی جانب سے دائر کردہ ریفرنس سماعت کے لیے مقرر کردیا۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ 18 اپریل کو ریفرنس کی سماعت کرےگا۔پانچ رکنی بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔
قبل ازیں عدالت عظمیٰ نے صدر مملکت کی جانب سے دائر کردہ صدارتی ریفرنس سماعت 12 اپریل کو مقرر کی تھی، تاہم صدارتی ریفرنس کی سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی درخواست پر مؤخر کردی گئی تھی۔
اس سلسلے میں ترجمان سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ نئے اٹارنی جنرل کا تقرر نہ ہونے کی بناء پر التوا کی درخواست کی گئی ہے جس کے سبب درخواست کی سماعت مؤخر کردی گئی۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 22 مارچ کو آئین کے آرٹیکل 63-‘اے’ کی تشریح کے لیے دائر صدارتی ریفرنس پر سماعت کے لیے 5رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا تھا۔
وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کے بعد حکومتی اراکین کی جانب سے وفاداری بدلنے پر ممکنہ نااہلی کے لیے سپریم کورٹ میں آئین کی دفعہ 63 اے کی تشریح کے لیے ریفرنس دائر کیا گیا تھا جس میں 4 سوالات اٹھائے گئے تھے۔
اس ضمن میں ایوانِ صدر سے جاری بیان کے مطابق صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرنے کی منظوری دی تھی۔
صدر مملکت نے وزیرِ اعظم کے مشورے پر آئین کے آرٹیکل 63 اے کے اغراض و مقاصد، اس کی وسعت اور دیگر متعلقہ امور پر سپریم کورٹ کی رائے مانگی تھی۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ آئین کی روح کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انحراف کی لعنت کو روکنے اور انتخابی عمل کی شفافیت، جمہوری احتساب کے لیے آرٹیکل 63 اے کی کون سی تشریح قابل قبول ہوگی۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ ایسی تشریح جو انحراف کی صورت میں مقررہ طریقہ کار کے مطابق رکن کو ڈی سیٹ کرنے کے سوا کسی پیشگی کارروائی مثلاً کسی قسم کی پابندی یا نئے سرے سے الیکشن لڑنے سے روکنے کی اجازت نہیں دیتی۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ وہ مضبوط بامعنی تشریح بیان کی جائے جو اس طرح کے آئینی طور پر ممنوع عمل میں ملوث رکن کو تاحیات نااہل کر کے منحرف ووٹ کے اثرات کو بے اثر کر کے اس طرزِ عمل کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔
ان کا کہنا تھا تھا کہ کیا ایک رکن جو آئینی طور پر ممنوع اور اخلاقی طور پر قابل مذمت حرکت میں ملوث ہو اس کا ووٹ شمار کیا جائے گا یا اس طرح کے ووٹوں کو خارج کیا جاسکتا ہے؟
خیال رہے کہ حکومت کی جانب سے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا تھا کہ جب پی ٹی آئی کے متعدد قانون سازوں کے سندھ ہاؤس اسلام آباد میں چھپے ہونے اور تحریک عدم اعتماد پر اس وقت کی اپوزیشن کا ساتھ دینے کا انکشاف ہوا تھا۔