اسلام آباد:(سچ خبریں) وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو بجٹ میں اخراجات اور ٹیکسز پر تشویش ہے۔
اسلام آباد میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ اب ہم آئی ایم ایف کے ساتھ اپنی بات چیت کے دوران ان سے کہہ رہے ہیں کہ ہم اب پاکستان کی معیشت کو تھوڑا نمو کی جانب لے کر جانا چاہ رہے ہیں، عالمی مالیاتی فنڈ سے اس حوالے سے رات کو بھی بات ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنی بات چیت کے دوران ان کے ساتھ اپنی حکمت عملی کا تبادلہ کیا ہے، اب ہم ان کے ساتھ تفصیلی بات چیت کریں گے اور ان کو قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔
عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ آئی ایم ایف حکام دیکھتے ہیں کہ ہمارے پرائمری سرپلس (آمدنی کے مقابلے میں اخراجات) کی پوزیشن کیا ہے، آپ نے خود دیکھا کہ مالی سال 24-2023 کا جو بجٹ قومی اسمبلی میں پیش ہوا، اس میں ہم بجٹ پہلے ہی پرائمری سرپلس دکھا رہے ہیں، اب اس میں وہ تھوڑی تفصیلات دیکھیں گے، پھر وہ اپنی چیزیں پوچھیں گے، پھر وہ اپنی گزارشات ہمارے سامنے پیش کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ خاص طور پر آئی ایم ایف حکام کے خدشات و تحفظات یا ان کی دلچسپی کا پہلو ٹیکسٹیشن سائڈ ہے، آپ کو یہ پتا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ پاور سیکٹر کو ہمیشہ سے تھوڑا سا اہمیت دیتا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز وزیر مملکت برائے خزانہ نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی اجلاس کے بعد صحافیوں کو بتایا تھا کہ حکومت حالیہ بجٹ پر عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ ’یقینی طور پر مسلسل رابطے‘ میں ہے، انہوں نے زور دیا کہ مایوسی کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ جاری بیل آؤٹ پیکیج کا نواں جائزہ مکمل نہیں ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ عالمی مالیاتی ادارے کی پہلے ہی فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ساتھ اجلاس ہو چکے ہیں، اس کے علاوہ مالیاتی ادارہ وزارت خزانہ کے ساتھ بھی رابطے میں ہے اور بجٹ کی تفصیلات، ڈیٹا کے حصول اور تمام چیزوں کی وضاحت حاصل کرنے کے لیے سوالات کر رہا ہے۔
ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے بتایا کہ آئی ایم ایف اور وزارت خزانہ کے درمیان 2 دونوں کے دوران متعدد سیشنز ہوئے ہیں، لہٰذا یقینی طور پر ہم مسلسل رابطے میں ہیں، ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک رابطے کے تسلسل کا تعلق ہے تو کسی کو کیوں کہنا چاہیے کہ معاملہ ختم ہو چکا ہے۔
ان سے سوال پوچھا گیا کہ کیا دوطرفہ ممالک کے ساتھ قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ پر مذاکرات شروع ہوئے ہیں، جس پر ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے بتایا کہ وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے وضاحت کے ساتھ بتایا ہے کہ پاکستان اس آپشن پر غور کر سکتا ہے لیکن پیرس کلب میں جانے کا نہیں سوچ رہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک کثیرالجہتی، تجارتی یا دیگر بین الاقوامی قرضوں پر ڈیفالٹ نہیں ہوگا، حالانکہ وہ دوسرے ممالک کی طرح اپنے دوطرفہ قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ پر غور کر سکتا ہے۔
یاد رہے کہ ملک آئی ایم ایف سے 1.1 ارب ڈالر کی قسط حاصل کرنے کے لیے ایک سال سے جدوجہد کر رہا ہے جب کہ گزشتہ روز اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سےجاری اعداد و شمار کے مطابق بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے مئی میں 2 ارب 10 کروڑ ڈالر کی ترسیلات زر بھیجی گئیں جو کہ ماہانہ بنیادوں پر 4 فیصد اور سالانہ بنیادوں پر 10 فیصد کم ہیں۔
کم ترسیلات زر کی آمد بیرونی کھاتوں کے حوالے سے صورتحال کو مزید مشکل بنا سکتی ہے کیونکہ ملک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر 4 ارب ڈالر سے بھی کم ہیں۔
گزشتہ ہفتے اپنے ایک بیان میں آئی ایم ایف نے کہا تھا کہ وہ حکومت سے بجٹ پر بات کر رہا ہے، پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کی ریزیڈنٹ نمائندہ ایستھر پیریز روئیز نے کہا تھا کہ ’مالی سال 2024 کے بجٹ پر بات چیت کا مرکز سماجی اخراجات میں اضافے کی گنجائش پیدا کرتے ہوئے قرضوں کے استحکام کے امکانات مضبوط کرنے کی ضرورت کو متوازن کرنا ہے‘۔
ملک گزشتہ بجٹ میں طے کیے گئے اپنے تقریباً تمام معاشی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا، خاص طور پر اس کی ترقی کا ہدف، جو کہ ابتدائی طور پر 5 فیصد مقرر کیا گیا تھا، جسے رواں سال کے اوائل میں کم کر کے 2 فیصد کر دیا گیا تھا۔