فطرت کھربوں روپے کی سہولت مفت فراہم کرتی ہے کیسے؟

بیت الخلاء

🗓️

لندن {سچ خبریں} زمینی مٹی اور اس کے اجزا ہر سال تین کروڑ 80 لاکھ ٹن کے لگ بھگ انسانی فضلہ فلٹر کرتی ہے اور اگر اسے صاف کرنے کے تجارتی پلانٹ لگائے جائیں تو ان پر کھربوں روپے خرچ کرنا ہوں گے۔

برطانیہ کی کرین فیلڈ یونیورسٹی سے وابستہ ایلیسن پارکر اور ان کے ساتھیوں نے افریقہ، ایشیا، شمالی اور جنوبی امریکہ کے 48 شہروں کے بیت الخلا کا جائزہ لیا ہے۔ انہوں نے یہ اندازہ لگایا ہےکہ یہاں انسانی فضلے اور پیشاب کی کتنی مقدار براہِ راست مٹی میں جاتی ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے مشاہدات، انٹرویو اور براہِ راست فیلڈ رپورٹس کا سہارا لیا ہے۔

انہوں نے ایسی جگہوں کا انتخاب کیا جہاں فضلہ سیوریج پائپ کی بجائے وہیں رہ جاتا ہے جن میں گڑھے والے لیٹرین اور سیپٹک ٹینک وغیرہ شامل ہیں۔ ان جگہوں پر رفع حاجت کے لیے زمین میں گڑھے کھودے جاتے ہیں یا پھر ٹینک وغیرہ میں اسے جمع کیا جاتا ہے۔

انہوں نے غور کیا کہ پٹ لیٹرین اور سیپٹک ٹینک کا آلودہ مائع ، زیرِ زمین پانی میں ملنے سے پہلے فلٹر ہوجاتا ہے۔ اس میں ہماری زمین کی مٹی ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ لیکن شہروں میں ایسا بہت کم دیکھا گیا ہے کہ کیونکہ اول تو وہاں آبادی کی وجہ سے آلودہ پانی کی بہت بڑی مقدار انڈیلی جاتی ہے ، دوم وہاں واٹرٹیبل بہت ہی کم گہرائی پر ہوتا ہے۔ اس طرح بڑے شہروں میں پانی فلٹر نہیں ہوپاتا اور وہ زیرِ زمین پانی یعنی بورنگ سے حاصل شدہ پانی کو آلودہ کرسکتا ہے۔

دنیا بھر میں غریب اور متوسط آمدنی والے ممالک میں لگ بھگ 90 کروڑ افراد اپنے فضلے کو ٹھکانے لگانے کے لیے یہی طریقہ استعمال کررہے ہیں۔ اس طرح اندازہ ہے کہ قریباً چارکروڑ ٹن انسانی فضلہ صرف مٹی ہی صاف کرتی ہے اور اسے فلٹر کرکے نیچے جانے دیتی ہے۔

لیکن تشویشناک بات یہ ہے کہ پاک وہند سمیت دنیا میں چار ارب کی آبادی کو فضلے اورنکاسی آب کی سہولیات دستیاب نہیں اور اس کے نتیجنے میں خطرناک امراض پھیل رہے ہیں۔ اس طرح لگ بھگ ہرسال 8 لاکھ افراد لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ تاہم اگرچہ دریاؤں میں جانے سے یہ فضلہ اپنی خطرناک تاثیر کم ضرور کردیتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہمیشہ ایسا ہی ہو۔

اسی مناسبت سے سائنسدانوں نے کہا ہے کہ ہر فرد کو نکاسی آب کی مناسب سہولیات فراہم کی جانی چاہیئں جو خود انسانوں اور اس کرہ ارض کے لیے بہت ضروری ہے۔

مشہور خبریں۔

کیا رفح کے باشندے اپنا شہر چھوڑ دیں گے؟

🗓️ 17 فروری 2024سچ خبریں: رفح کے باشندوں نے آخری دم تک مزاحمت کی حمایت

امریکا دباؤ کے بجائے افغانستان کے ساتھ بات چیت کرے: طالبان

🗓️ 1 جولائی 2022سچ خبریں:  طالبان کی عبوری حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی

امریکی اپنی جمہوریت کو تباہی کے دہانے پر دیکھ رہے ہیں:ایک سروے

🗓️ 16 جنوری 2022سچ خبریں:شوئن کوپرمین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ایک نئے سروے کے نتائج

افغانستان میں زچگی کی حالت میں مرنے والی خواتین ایشیائی ممالک میں سرفہرست

🗓️ 28 مارچ 2023سچ خبریں:تسنیم خبررساں ادارے کے علاقائی دفتر کے مطابق، اقوام متحدہ کے

چین غزہ جنگ بندی کے لیے کیا کر رہا ہے؟

🗓️ 15 اکتوبر 2023سچ خبریں: غزہ کی پٹی پر صیہونی فوج کے متوقع زمینی حملے

کوئی بھی مصری فوجی کے حملے کی بات نہیں کرے گا:نیتن یاہو

🗓️ 7 جون 2023سچ خبریں:صیہونی وزیراعظم نے اپنی کابینہ اور پارلیمنٹ کے ارکان سے کہا

شیریں ابو عاقلہ کی شہادت میں صیہونیوں کو بری کرنے کے لیے امریکہ کا استدلال

🗓️ 4 جولائی 2022سچ خبریں:  امریکی محکمہ خارجہ نے مغربی کنارے میں صیہونی حکومت کے

عمار حکیم کے سعودی عرب جانے کی وجوہات

🗓️ 19 اگست 2022سچ خبریں:عراق کی قومی حکمت کی تحریک نے اس تحریک کے سربراہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے