واشنگٹن (سچ خبریں) امریکا نے اگرچہ افغانستان میں اپنی ذلت آمیز شکست تسلیم کرتے ہوئے اپنی افواج کے انخلا کی تیاریاں شروع کردی ہیں لیکن وہ نہیں چاہتا کہ اتنی آسانی سے افغانستان سے نکل جائے اسی لیئے آئے دن کچھ نا کچھ نئی افواہیں پھیلا رہا ہے اور ملک میں شدید تباہی کا انتباہ جاری کررہا ہے تاکہ اسے افغانستان میں مزید رکنے کا بہانہ مل جائے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق امریکی جنرل نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں شدید تباہی پھیل سکتی ہے۔
افغانستان کے مستقبل کے بارے میں سوال پر جوائنٹ چیفس کے چیئرمین جنرل مارک ملی نے سیڈونا فورم کو بتایا کہ مشکل صورتحال ہے، اس کے بارے میں کوئی اچھے جوابات نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے دو ہفتے قبل امریکی فوج کے انخلا کے فیصلے کے تحت ستمبر تک پینٹاگون اپنے باقی 2 ہزار 500 سے زائد افواج کو واپس بلالے گا تاکہ 2 دہائیوں سے جاری جنگ کا خاتمہ ہوسکے۔
جنرل مارک ملی کا کہنا تھا کہ ‘اس کے بعد کیا ہوگا، میرے خیال میں نتائج کئی طرح کے ہوسکتے ہیں جن میں سے چند کافی خراب ہیں اور چند ایسے ہیں جو کافی خراب نہیں ہیں، بدترین معاملات جو سامنے آسکتے ہیں ان میں حکومت کا ممکنہ خاتمہ، فوج کا ممکنہ خاتمہ، خانہ جنگی اور تمام انسانیت سوز تباہی جو اس کے ساتھ رونما ہوتی ہے، شامل ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ اس میں نائن الیون حملوں کے پیچھے تنظیم القاعدہ کی بحالی بھی شامل ہوسکتی ہے جو 2001 میں امریکا کی زیر قیادت شروع ہونے والی اس جنگ کا اصل مقصد تھی۔
مارک ملی کا کہنا تھا کہ دوسری جانب آپ کے پاس 3 لاکھ 50 ہزار مضبوط فوج، پولیس فورس اور افغان سیکیورٹی فورسز ہے اور اس وقت آپ کے پاس وہاں حکومت بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ کافی عرصے سے طالبان کے خلاف بغاوت مخالف کارروائیوں میں مصروف ہیں لہذا یہ کوئی حتمی نتیجہ نہیں ہے کہ کابل کا خود بخود خاتمہ ہوجائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کا بہترین نتیجہ کابل حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات اور معاہدہ ہوسکتا ہے، تاہم انہوں نے یہ اندازہ لگانے سے گریز کیا کہ امریکی فوجیوں کے جانے کے بعد ملک کون سا ممکنہ راستہ اختیار کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ امریکی فوجیوں کے جانے کے بعد اگر القاعدہ اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کرے گا تو وہ اس کی نگرانی اور ان کا پیچھا کرسکتے ہیں۔