میانمار (سچ خبریں) میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف ایک بار پھر لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور شدید مظاہرے شروع کردیئے جبکہ ان مظاہروں میں فوج کے خلاف سخت نعرے بازی کی گئی۔
تفصیلات کے مطابق میانمار میں یوم مزور پر ہزاروں افراد نے ملک میں یکم فروری کو ہونے والی فوجی بغاوت اور اس کے بعد سے جاری کریک ڈاؤن کے خلاف مظاہرے کیے۔
خبررساں اداروں کے مطابق ہفتے کے روز میانمار میں منڈالے، ینگون اور باگو جیسے شہروں میں ہزاروں افراد نے ہم آخر دم تک لڑیں گے، اور فوج ہماری حکمران کبھی نہیں ہو سکتی، جیسے نعروں کے ساتھ مظاہرے کیے۔
اقوام متحدہ کے مطابق میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد سے جاری پُرتشدد ہنگاموں کی وجہ سے وہاں 35لاکھ افراد کے بھوک کا شکار ہو جانے کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کی میانمر کے لیے خصوصی ایلچی کرسٹین شرنربرگینر نے خبردار کیا ہے کہ میانمر میں ریاستی انتظامیہ تعطل کا شکار ہوسکتی ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بند کمرہ اجلاس میں بغاوت کے بعد میانمر میں ہونے والی پیشرفتوں پر غور کیا، اس دوران برگینر نے خطے کے دورے کے بعد کونسل کو آگاہ کیا۔
انہوں نے ملک میں بغاوت کے بعد میانمر میں ہر شعبے میں حالات ابتر ہونے پر توجہ مبذول کرائی، برگینر نے بتایا کہ بڑھتی کشیدگی اور تشدد نے نسلی علاقوں میں تنازعات کو پھر سے جانبر کردیا ہے۔
ان کا اندازہ ہے کہ فروری سے اب تک 20 ہزار افراد ملک کے اندر بے گھر ہوگئے ہیں اور 10 ہزار افراد ہمسایہ ممالک کو نقل مکانی کر گئے ہیں، ملک میں موجود مفلسی، کورونا وبا، سیاسی بحران، فاقہ کشی اور لا چارگی کے ماحول میں سرعت سے اضافہ ہونے کی جانب اشارہ دینے والی ایلچی نے آیندہ کے 6 ماہ میں 34 لاکھ افراد کے فاقہ کشی کا شکار ہونے پر خبردار کیا اور کہا ہے کہ اگر ان حالات کا ابھی سے سد باب نہ کیا گیا تو یہ طویل مدت میں میانمار اور ہمسایہ ممالک کو کہیں زیادہ مہنگا پڑے گا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی زور دیا ہے کہ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم آسیان کے رہنماؤں نے میانمار کی صورتحال کے پُرامن حل کے لیے جن 5 نکات پر اتفاق کیا ہے، ان پر فوری عمل کیا جائے۔
گزشتہ ہفتے انڈونیشیا میں آسیان کے سربراہ اجلاس کے بعد سلامتی کونسل نے جمعہ کے روز آن لائن بند کمرہ اجلاس منعقد کیا، آسیان رہنماؤں نے چیئرمین کا ایک بیان جاری کیا ہے۔