پیرس (سچ خبریں) طالبان کی جانب سے آئے دن افغانستان کے مختلف علاقوں میں پیش قدمی کی جارہی ہے اور متعدد اضلاع پر کنٹرول حاصل کیا جارہا ہے اور واضح ہے کہ یہ سب کچھ امریکا کی مدد اور اس کے اشاروں پر ہی کیا جارہا ہے لیکن دنیا کو یہ دکھانے کے لیئے کہ امریکا طالبان کی اس پیش قدمی کے خلاف ہے، امریکی سیکریٹری خارجہ نے اہم بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا یہ جائزہ لے رہا ہے کہ کیا طالبان افغانستان میں امن چاہتے ہیں یا نہیں۔
تفصیلات کے مطابق امریکا کے سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ واشنگٹن اس بات کا جائزہ لے رہا ہے کہ طالبان، افغانستان میں تنازع کے خاتمے کے لیے سنجیدہ ہیں یا نہیں جبکہ طاقت کے زور پر ملک پر دوبارہ قبضے کی کوشش امن کوششوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق پیرس کے دورہ کرنے والے انٹونی بلنکن نے اعتراف کیا کہ امریکی صدر جو بائیڈن، افغان صدر اشرف غنی اور ان کے سابق سیاسی حریف عبداللہ عبداللہ کے درمیان واشنگٹن میں طے شدہ ملاقات سے قبل افغان سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
امن عمل اس وقت تعطل کا شکار ہے اور افغان سیکیورٹی فورسز، طالبان کا مقابلہ کر رہی ہیں جو کئی صوبوں کے دارالحکومت کے لیے خطرہ ہیں، دوسری جانب حکومتی فورسز کی مدد کے لیے نسلی گروپ اور ملیشیاز اکٹھا ہوگئے ہیں۔
فرانس کے وزیر خارجہ کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران انٹونی بلنکن نے کہا کہ ہم افغانستان میں سیکیورٹی صورتحال بہت غور سے دیکھ رہے ہیں اور اس بات کو بھی بغور دیکھ رہے ہیں کہ کیا طالبان، تنازع کے پرامن حل کے لیے سنجیدہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ لیکن یقینی طور پر طاقت کے زور پر ملک پر قبضے کی کوشش کرنا پرامن حل تلاش کرنے کے بالکل متضاد ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا کے لیے افغانستان میں اسٹیٹس کو کوئی آپشن نہیں ہے، ہم ملک کے کچھ حصوں میں افغان سیکیورٹی فورسز پر ایک سال قبل کی بنسبت حملوں میں اضافہ دیکھ رہے ہیں۔
امریکی سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ اگر ہم افواج کے انخلا کا عمل شروع نہیں کرتے تو اسٹیٹس کو کا خاتمہ نہیں ہوگا، جبکہ اسٹیٹس کو کوئی آپشن نہیں ہے۔
یاد رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے اپریل میں 11 ستمبر تک افغانستان سے امریکی افواج کے مکمل انخلا کا اعلان کیا تھا، اس کے بعد امریکی حمایت یافتہ افغان فورسز اور طالبان کے درمیان لڑائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔