سچ خبریں:غزہ کی جنگ میں امریکہ کی عملی حمایت، زمینی حقائق اور اسرائیلی حکام کے بیانات واضح کرتے ہیں کہ ان کا حتمی مقصد نسلی صفایا ہے۔
یحییٰ السنوار کی شہادت کے بعد اسرائیلی حکام کا دعویٰ ہے کہ حماس کمزور ہوچکی ہے جبکہ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اب غزہ میں جنگ بندی کا امکان زیادہ ہے، تاہم غزہ پر مسلسل حملے اور اس پٹی میں نسل کشی کی سیاست کے تسلسل کو دیکھ کر واضح ہوتا ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کا اصل ایجنڈا جنگ کا اختتام نہیں بلکہ یہاں کی آبادی کا زبردستی انخلا اور نسلی صفایا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا امریکہ غزہ میں جنگ بندی کی کوشش کر رہا ہے؟ وائٹ ہاؤس کا دعوی
اسرائیل کا حماس کی نابودی کا دعویٰ
السنوار کی شہادت کے بعد سے اسرائیلی حکام مسلسل دعویٰ کر رہے ہیں کہ حماس اب کمزور ترین حالت میں ہے، اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا کہ یہ غزہ کی جنگ کا اختتام نہیں بلکہ حماس کے خاتمے کا آغاز ہے، ان کے بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ اسرائیلی حکومت نہ تو جنگ ختم کرنا چاہتی ہے اور نہ ہی قیدیوں کی رہائی کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہتی ہے۔
امریکہ کے جنگ بندی کے دعوے
السنوار کی شہادت کے بعد امریکی حکام نے اسے جنگ کے اختتام کا موقع قرار دیا، امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ یہ ایک موقع ہے کہ ہم جنگ بندی پر بات چیت کریں اور قیدیوں کو آزاد کریں،تاہم، امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن کے حالیہ دورے میں جنگ بندی کے لیے کوئی سنجیدہ قدم دیکھنے میں نہیں آیا، امریکہ کی کوششیں صرف ظاہری ہیں اور اسرائیل پر کسی قسم کا دباؤ ڈالنے کا ارادہ نہیں رکھتیں۔
نتین یاہو کی حکمت عملی اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال
نتین یاہو نے حالیہ دنوں میں یہ بیان دیا کہ ہم مشرق وسطیٰ میں اسٹریٹجک صورتحال کو تبدیل کر رہے ہیں،اس وقت جب مزاحمتی بلاک اور ایران بھی جنگ بندی کے خواہاں ہیں، یہ اسرائیل کا انتہا پسندانہ موقف ہے جو حماس، حزب اللہ اور ایران کے خلاف سخت پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ امریکہ نے عدالتی اصلاحات کے معاملے میں نتین یاہو پر جتنا دباؤ ڈالا تھا، غزہ کی جنگ بندی کے لیے اس کا عشر عشیر بھی نہیں۔
گزشتہ ایک سال کے دوران امریکہ نے تل ابیب کی حمایت کو اپنی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں شامل کر لیا ہے، امریکہ نے اب تک 22 ارب ڈالر مالیت کی فوجی امداد، اسلحہ اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل کے لیے سفارتی تحفظ فراہم کیا ہے، جس سے اسرائیل کو غزہ پر حملے اور لبنان تک حملوں کی توسیع کا موقع ملا ہے، حالیہ ہفتوں میں، صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کملا ہیرس دونوں نے اسرائیل کی کھل کر حمایت کی ہے۔
امریکہ کی بے دریغ حمایت نے صہیونی حکام کو مغربی ایشیا میں مزید بڑے اقدامات کی جرأت دی ہے،حالیہ مثال میں امریکہ نے اسرائیل کو اپنا جدید میزائل دفاعی نظام تھاڈ اور تقریباً 100 امریکی فوجیوں کی مدد فراہم کی ہے۔
غزہ میں نسلی صفایا اور اجباری انخلا کی پالیسی
اگرچہ اسرائیلی حکام حماس کو کمزور کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور امریکہ جنگ بندی کے قریب ہونے کا عندیہ دیتا ہے، لیکن زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ ان کا اصل مقصد نسلی صفایا اور اجباری انخلا ہے، خاص طور پر شمالی غزہ میں۔
صہیونی وزیر جنگ یوآو گالانت نے کہا کہ ہم ایک نئے عہد میں ہیں جس میں شمالی غزہ کے لوگوں کی نقل مکانی کے لیے وقت درکار ہے، کملا ہیرس نے اپنی مہم میں کہا کہ غزہ کے لیے ایک نئے دن کا آغاز ہونا چاہیے۔
حالیہ واقعات جیسے کہ جبالیا کیمپ اور کمال عدوان اسپتال پر حملے، اسرائیل کی نسلی صفایا اور اجباری انخلا کی پالیسی کو ظاہر کرتے ہیں۔ شمالی غزہ میں جبالیا کیمپ پر حملے میں گزشتہ تین ہفتوں میں 820 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جبکہ بیت لاہیا میں درجنوں گھروں کو جلا دیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: غزہ کی پٹی میں جنگ جاری رکھنے کے لیے امریکہ کا نیتن یاہو کے ساتھ عزم
غزہ میں سول ڈیفنس کے ترجمان محمود بصل نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے جبالیا اور بیت لاہیا میں ہونے والے واقعات کو ایک انسانی المیہ قرار دیا اور کہا کہ کمال عدوان اسپتال کے اطراف میں ہونے والے قتل عام نے معصوم فلسطینیوں کو نشانہ بنایا ہے۔
آخری بات
یحییٰ سنوار کی شہادت کے بعد امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے غزہ میں حماس کی کمزوری اور جنگ بندی کی بات کی جا رہی ہے لیکن امریکہ کی کھلی حمایت اور اسرائیل کے بیانات و اقدامات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان کا اصل مقصد غزہ میں نسل کشی اور اجباری انخلا ہے۔