سچ خبریں: حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے کہا ہے کہ حالیہ دہشتگردانہ کارروائیاں لبنان کے خلاف جنگ کا اعلان تصور کی جا سکتی ہیں، لیکن اس کے باوجود ہم قابضین کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
المنار چینل کی رپورٹ کے مطابق حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے لبنان اور خطے کی تازہ ترین صورتحال پر خطاب کیا۔
سید حسن نصراللہ نے اس خطاب میں صہیونی دشمن کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہونے والے مجاہدین کی شہادت پر تعزیت پیش کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے، میں لبنانی حکومت، طبی مراکز، اسپتالوں اور ڈاکٹروں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے بڑی تعداد میں زخمیوں خصوصاً آنکھوں کے زخمی ہونے والے مریضوں کو سنبھالنے میں بے پناہ دباو برداشت کیا۔ ہم نے لبنان کی تاریخ میں خون کے عطیات کی سب سے بڑی مہم دیکھی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پیجر دھماکوں کے بارے میں امریکی چینل کا نیا انکشاف
انہوں نے مزید کہا کہ ہم ایک عظیم انسانی اور اخلاقی حماسه کے گواہ بنے، جس کا مظاہرہ قومی اور انسانی سطح پر ہوا، میں ان تمام افراد کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے خون عطیہ کیا، اور ان ممالک کا بھی جنہوں نے لبنان کو مدد فراہم کی، خاص طور پر ایران اور عراق۔ دشمن نے ہزاروں پیغام رسان آلات کو نشانہ بنایا اور تمام قوانین اور سرخ لکیریں عبور کر دیں۔”
نصراللہ نے مزید کہا کہ کچھ دھماکے اسپتالوں، بازاروں، عام گزرگاہوں، گھروں اور ان مقامات پر ہوئے جہاں عام شہری موجود تھے۔ اس دہشت گردی کا مقصد صرف ایک منٹ میں 4 ہزار افراد کو ہلاک کرنا تھا، اور بدھ کو بھی درجنوں لوگ شہید اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ دشمن کی منظم کارروائیاں انسانی جانوں کا بے دریغ ضیاع کرنے کے لئے کی گئیں۔”
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بیروت میں حالیہ جرم جنگ کے اعلان کے مترادف تھا اور ان واقعات کو بڑے پیمانے پر قتل عام کہا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حزب اللہ نے فنی اور سیکیورٹی تحقیقات کے لئے اندرونی کمیٹیاں تشکیل دی ہیں اور تمام ممکنہ نظریات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ جلد ہی حتمی نتائج سامنے آئیں گے اور مناسب کارروائی کی جائے گی۔
نصراللہ نے کہا کہ امریکہ اور نیٹو کی مدد سے دشمن نے تکنیکی میدان میں ترقی حاصل کی ہے، لیکن حالیہ دو دن کی بھاری اور وسیع حملے ہمیں کمزور نہیں کر سکے اور ہم اپنی جنگ کو جاری رکھیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تل ابیب کو شمالی محاذ پر اپنی شکست کا اعتراف کرنا پڑا، اور یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ ہمارے حملے دشمن پر کتنے مؤثر ثابت ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دشمن اسرائیل غزہ میں جنگ روکنے کے لئے مذاکرات میں فلسطینی مزاحمتی قوتوں کے سامنے مجبور ہو چکا ہے۔
حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اپنے خطاب میں زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم غزہ کی حمایت سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے، انہوں نے کہا: "منگل کے روز ہمیں سرکاری اور غیر سرکاری چینلز کے ذریعے پیغامات موصول ہوئے جن میں کہا گیا کہ ہم غزہ کی حمایت اور جنوبی لبنان سے کارروائیوں کو روک دیں۔
انہوں نے ہمیں دھمکیاں دیں کہ اگر ہم اپنی کارروائیاں بند نہیں کرتے تو ہمیں مزید حملوں کا سامنا کرنا پڑے گا، لیکن میں واضح کر دوں کہ ہم ان دھمکیوں کے آگے کبھی نہیں جھکیں گے اور غزہ کی حمایت سے دستبردار نہیں ہوں گے۔
دشمن کے کابینہ اور صہیونی فوج کو پیغام دیتے ہیں کہ جب تک غزہ پر حملے جاری ہیں، لبنان کی سرحد سے ہماری کارروائیاں بھی جاری رہیں گی۔”
انہوں نے مزید کہا: "دشمن صہیونی کا مقصد مزاحمتی صفوں میں انتشار پھیلانا تھا، لیکن وہ اپنے اس مقصد میں ناکام رہا۔ مزاحمت نے اپنے اصولوں اور مؤقف پر مکمل طور پر قائم رہتے ہوئے دشمن کے منصوبوں کو ناکام بنایا۔
دشمن نے بڑے پیمانے پر دھماکوں اور دباو کے ذریعے مزاحمت کو کمزور کرنے کی کوشش کی، لیکن زخمی جنگجو بلند حوصلے کے ساتھ اپنی جدوجہد کو جاری رکھنے پر اصرار کر رہے ہیں۔”
نصراللہ نے کہا کہ ہم شہداء کے اہل خانہ اور زخمیوں کے صبر و تحمل کے آگے شرمندہ ہیں۔ دشمن نے مزاحمت کی قیادت کو تباہ کرنے اور صفوں میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی، لیکن ایک لمحے کے لیے بھی اسے کامیابی نہیں ملی۔
ہم ہر ممکنہ صورت حال کے لیے تیار ہیں، اور مزاحمت کی بنیادیں مضبوط ہیں۔ دشمن یہ سمجھ لے کہ حالیہ دو دن کے دھماکے نہ تو مزاحمت کی قیادت کو متاثر کر سکے ہیں اور نہ ہی جنگی محاذ پر موجود ہماری افواج کو۔
انہوں نے نتن یاہو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "کیا تم شمال میں اپنے لوگوں کو واپس لا سکتے ہو؟ تم کبھی بھی یہ کام نہیں کر سکو گے۔ تم جو کرنا چاہتے ہو، کر لو۔ واحد راستہ یہ ہے کہ غزہ اور مغربی کنارے پر حملے بند کرو۔
تل ابیب لبنان کی سرزمین میں ایک سیکیورٹی بیلٹ بنانے کی بات کر رہا ہے، اور ہمیں امید ہے کہ وہ یہ قدم اٹھائے گا۔ لبنان کی سرزمین میں کسی بھی قسم کی دراندازی ہمارے لیے دشمن کو نشانہ بنانے کا تاریخی موقع ہو گا، جو جنگ کے محاذ پر بڑے اثرات مرتب کرے گا۔”
انہوں نے مزید کہا کہ ہم دشمن کے ٹینکوں کی تلاش میں رہتے ہیں، اور اگر ہمیں وہ مل جائیں تو ہم ان کا خیرمقدم کریں گے۔ 1978 اور 1982 میں مزاحمت کا مقصد سرحدی پٹی کی آزادی تھا، اور اگر دشمن سیکیورٹی بیلٹ بنانے کی کوشش کرے گا تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ یہ بیلٹ ایک دام اور کمین گاہ میں تبدیل ہو جائے گا اور دشمن کو سخت حساب کتاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔”
سید حسن نصراللہ نے زور دے کر کہا کہ "گزشتہ دو دن کے واقعات کا جواب عادلانہ قصاص اور سخت حساب کتاب کے ذریعے دیا جائے گا۔ میں وقت اور مقام کے بارے میں بات نہیں کروں گا، کیونکہ آپ وہ خبر دیکھیں گے جو آپ سنیں گے نہیں، کیونکہ ہم جنگ کے انتہائی حساس، عمیق اور دقیق مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔”
مزید پڑھیں: لبنان میں پھٹنے والے پیجر کہاں تیار کیے گئے تھے ؟تائیوانی کمپنی کا انکشاف
انہوں نے لبنانی عوام سے اپیل کی کہ "اس مثبت روح کو برقرار رکھیں جو اس ملک میں پیدا ہوئی ہے، باوجود اس کے کہ کچھ افراد حالات کو بگاڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔”
نصراللہ نے مزید کہا کہ "نتن یاہو اور گالانت کی حماقت اور خود پسندی، صہیونی حکومت کو ایک گہری کھائی کی طرف دھکیل رہی ہے۔”