ماسکو (سچ خبریں) روس نے امریکی پابندیوں کے جواب میں بڑا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا کی جانب سے روسی سفارتکاروں کو ملک بدر کرنے کے جواب میں روس بھی 10 امریکی سفارتکاروں کو ماسکو سے نکال دے گا۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق روسی وزیر خارجہ سیرگی لاوروف نے کہا کہ ماسکو امریکی پابندیوں کے جوابی رد عمل میں 10 امریکی سفارتکاروں کو روس چھوڑنے کا حکم دے گا۔
انہں نے مزید کہا کہ ماسکو اپنی پابندیوں کی فہرست میں 8 امریکی عہدیداروں کو شامل کرے گا اور امریکی غیر سرکاری تنظیموں کی سرگرمیوں کو روس کی سیاست میں مداخلت سے روکنے کے اقدام کرے گا۔
انہوں نے امکان ظاہر کیا کہ روس میں امریکی کاروبار کے خلاف تکلیف دہ اقدامات اٹھائے جائیں گے لیکن ایسا فوری طور پر نہیں ہوگا۔
واضح رہے کہ امریکا نے جمعرات کے روز 10 روسی سفارت کاروں، درجنوں کمپنیوں اور لوگوں کو ملک بدر کرنے کا حکم دیا تھا اور روس کی طرف سے قرضے لینے کی صلاحیت پر نئی پابندی عائد کردی۔
سیاسی ماہرین نے پیشنگوئی کی تھی کہ ماسکو یقینی طور پر اسی طرح کے ردعمل کا اظہار کرے گا لیکن کشیدگی سے بچنے کے لیے کسی بھی دوسرے اہم اقدام سے باز رہے گا۔
روسی صدر ولادیمیر پوتن کی خارجہ پالیسی کے معاون یوری عشاکوف نے امریکی سفیر جان سلیوان کو روسی ردعمل کے بارے میں بتانے کے لیے دعوت دی تھی لیکن کریملن کی جانب سے اس کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئی۔
چند روز قبل امریکی صدر جو بائیڈن نے گزشتہ برس ہونے والے صدارتی انتخاب میں مداخلت اور وفاقی ایجنسیز کی ہیکنگ کے الزام میں روس پر نئی پابندیاں عائد کرتے ہوئے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کردیے تھے۔
انتظامیہ کی جانب سے کئی ہفتوں تک محیط یہ اقدامات، ہیکنگ کے الزام میں کریملین کے خلاف پہلے مزاحمتی ردعمل کی نشاندہی کرتے ہیں، جسے سولر ونڈز بریچ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اس مداخلت کے حوالے سے مانا جاتا ہے کہ روسی ہیکرز نے وسیع پیمانے پر استعمال ہونے والے سافٹ ویئر کو وائرس پر مبنی کوڈ سے متاثر کیا تھا جس کے نتیجے میں انہوں نے امریکی ایجنسیز کے نیٹ ورکس تک رسائی حاصل کی۔
اس ہیک کے علاوہ گزشتہ ماہ امریکی حکام نے الزام لگایا تھا کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے بطور صدر دوبارہ انتخاب میں حصہ لینے والے ڈونلڈ ٹرمپ کی ناکامی پر ان کی مدد کے لیے اثر و رسوخ پر مبنی آپریشنز کی اجازت دی تھی تاہم اس کے کوئی شواہد نہیں کہ روس یا کسی اور نے ووٹوں کو تبدیل کیا یا نتائج میں کوئی رد و بدل کیا، تاہم روس نے ان تمام کارروائیوں کے الزامات کو مسترد کیا تھا اور جوابی کارروائی سے خبردار کیا تھا۔
اعلان میں 6 روسی کمپنیوں پر پابندیاں بھی شامل ہیں جو ملک کی سائبر سرگرمیوں میں تعاون کرتی ہیں، ان پابندیوں کے ساتھ ساتھ 32 افراد اور اداروں پر پابندی عائد کی گئی ہے جن پر گزشتہ برس کے صدارتی انتخاب میں مداخلت سمیت گمراہ کن معلومات پھیلانے کا الزام شامل تھا۔
وائٹ ہاؤس نے یہ بھی کہا تھا کہ جو بائیڈن ان رپورٹس کے جواب میں سفارتی، فوجی اور انٹیلی جنس چینلز کا استعمال کر رہے تھے کہ روس نے انٹیلی جنس کمیونٹی کے بہترین اندازوں’ کی بنیاد پر افغانستان میں امریکی اور اتحادی فوجیوں پر حملہ کرنے کے لیے طالبان کی حوصلہ افزائی کی تھی۔
مذکورہ پابندیوں کے اعلان کے بعد، روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریہ زخارووا نے خبردار کیا تھا کہ اس طرح کا جارحانہ سلوک بلا شبہ انتقام کے عزم کو متحرک کردے گا۔