سچ خبریں:سعودی عرب کی جانب سے تیل کی پیداوار میں کمی کے فیصلے کے بعد کئی ماہرین اور مبصرین نے واشنگٹن اور ریاض کے تعلقات کے مستقبل پر سوالات اٹھائے ہیں۔
اس سال کی تیسری سہ ماہی میں تیل کی قیمتیں 80 ڈالر فی بیرل سے نیچے آنے کے بعد حالیہ مہینوں میں امریکیوں کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کے نتیجے میں سعودی عرب کی پیداوار میں غیر سرکاری اضافے کے بعد سعودی عرب نے اچانک تیل کی پیداوار میں کمی کا فیصلہ کیا۔
واضح رہے کہ اوپیک + گروپ کی جانب سے تیل کی پیداوار میں 2 فیصد کمی کرنے کے حالیہ فیصلے نے قریبی اتحادیوں کی حیثیت سے ریاض اور واشنگٹن کے تعلقات میں تناؤ پیدا کر دیا ہے، OPEC+ کے اراکین نے بدھ 5 اکتوبر کو تیل کی پیداوار میں 2 فیصد کمی پر اتفاق کیا۔ اس معاہدے کے مطابق یہ طے پایا کہ 20 لاکھ بیرل تیل یومیہ کم مارکیٹ میں بھیجا جائے گا۔
یاد رہے کہ یہ ایک ایسی پالیسی جس سے پہلے عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمت بڑھے گی اور پھر امریکہ کے مطابق دنیا کی اس نازک صورتحال میں یوکرین کی جنگ کا نتیجہ روس کے حق میں نکلے گا، الاخبار کے مطابق بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ تیل کی پیداوار میں کمی محمد بن سلمان کی جانب سے امریکی صدر جوبائیڈن کو تھپڑ مارنے کا دانستہ اقدام ہے جب کہ اوپیک پلس ممبران کے اس فیصلے سے امریکی پریشان ہیں اور انہوں نے دھمکیاں دینا شروع کر دی ہیں۔
اس کے نتیجے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ تیل کی پیداوار میں کمی کا فیصلہ بن سلمان اور جو بائیڈن کے درمیان تناؤ کا باعث بنا ہے جب کہ جوبائیڈن کی انتظامیہ بہت کمزور ثابت ہوئی جس کی وجہ سے محمد بن سلمان کسی حد تک اس پر فتح حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔