سچ خبریں: مقبوضہ فلسطین کا شمالی محاذ مکمل انتشار کا شکار ہے اور صیہونی رہنما نہ حزب اللہ کے حملے روک سکتے ہیں اور نہ ہی اس کے ساتھ جنگ بندی قائم کر سکتے ہیں۔
روزنامہ الاخبار نے اطلاع دی ہے کہ لبنان کے خلاف صیہونی رہنماوں کی جنگ کی دھمکیوں کے باوجود، جو حالیہ دنوں میں کمزور ہو گئی ہیں، تل ابیب ابھی تک امریکہ اور مغربی ممالک کی مداخلت کے لئے کوشش کر رہا ہے تاکہ لبنان کے جنوبی محاذ کو پرسکون کر سکے اور حزب اللہ کی کارروائیوں کو روک سکے۔
صیہونیوں کی حزب اللہ کے ساتھ جنگ بندی کی کوششیں
اسی سلسلے میں مطلع ذرائع نے اطلاع دی کہ لبنان میں امریکہ کے خصوصی نمائندہ عاموس ہوکشتائن ایک معاہدے تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں جو مقبوضہ فلسطین کے شمالی محاذ پر جنگ کو روک سکے۔
یہ بھی پڑھیں: صیہونیوں کی حزب اللہ کے ساتھ جنگ کی تیاریاں
ہوکشتائن نے حالیہ دنوں میں علاقائی امور کے ماہرین کے ساتھ ملاقاتوں میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ حزب اللہ اسرائیل کے ساتھ وسیع جنگ کی خواہاں نہیں ہے اور تل ابیب بھی حزب اللہ کے ساتھ جنگ بندی کے سیاسی حل تک پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے۔
جنگ سے بچنے کے لئے آگے بڑھنا
ہوکشتائن نے ایک بند دروازے کے پیچھے اجلاس میں کہا کہ لبنان اور اسرائیل (مقبوضہ فلسطین) کے سرحدی علاقے میں سکیورٹی انتظامات کے بارے میں حزب اللہ کے مطالبات کا جواب نہ دینے کی وجہ سے اسرائیل شمالی علاقے میں آبادکاروں کی واپسی اور اس علاقے کے خطرات کو ختم کرنے کے لئے عسکری اقدامات کے متبادل تلاش کر رہا ہے۔
تاہم میدان کے حالات اسرائیلی اور امریکی توقعات اور مطالبات سے ہم آہنگ نہیں ہیں؛ خاص طور پر کیونکہ حزب اللہ نے مہینوں پہلے سے مقبوضہ فلسطین کے شمالی سرحدی علاقے میں اپنی پیشرفتہ کارروائیوں کو بڑھانا شروع کر دیا ہے اور ان تمام اسرائیلی فوجی اڈوں کو نشانہ بنا رہا ہے جو لبنان پر حملوں میں شامل ہیں؛ چاہے وہ توپ خانہ حملوں کے اڈے ہوں یا وہ اڈے جو معلومات جمع کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔
گولانی بریگیڈ کی شمالی محاذ پر جنگ کی تیاری کے لئے مشق
کچھ صیہونی ذرائع نے انکشاف کیا کہ گولانی بریگیڈ کی کچھ بٹالین شمالی محاذ پر جنگ کے منظرنامے کی تیاری کے لئے تربیتی مشقوں میں حصہ لے رہی ہیں، یہ افواج لبنان کے زمینی راستے کو کنٹرول کرنے کی تربیت حاصل کر رہی ہیں تاکہ حزب اللہ کے ضد ٹینک میزائلوں، دستی بموں کی شناخت اور انہیں کنٹرول کرنے، آگ کے دائرے کو تیزی سے بند کرنے اور حزب اللہ کے عناصر کو نشانہ بنانے کی اپنی صلاحیت کو بڑھا سکیں۔
اس کے ساتھ ساتھ مذکورہ اسرائیلی افواج نے شمالی محاذ پر جنگ کے دوران مشکل اور پیچیدہ حالات میں زخمیوں کو نکالنے کی مشق بھی کی۔
حزب اللہ اسرائیل کے لئے نئے حیرتوں کی تیاری کر رہی ہے
تاہم عبرانی میڈیا نے صیہونی رہنماوں کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ حزب اللہ نے جنگ کے دوران اسرائیل کو حیرت میں ڈال دیا اور پیشرفتہ ہتھیاروں کا استعمال کیا اور اب حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ اسرائیل کو دو سطحوں پر حیرت میں ڈالنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں: پہلا معاملہ نئے ہتھیاروں کا استعمال ہے جو اس سے پہلے موجودہ جنگ میں استعمال نہیں ہوئے جیسے کہ طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل، دوسرا معاملہ حزب اللہ کی جانب سے اسرائیلی فوج کے جنگی طیاروں کا مقابلہ کرنے کے لئے زمین سے ہوا میں مار کرنے والے میزائلوں کا استعمال ہے۔
ان میڈیا رپورٹس میں کہا گیا کہ اسرائیل کے شمالی فوجی اڈے ہائی الرٹ پر ہیں، ان ہی رپورٹس میں اسرائیل کے انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سکیورٹی اسٹڈیز کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج ابھی بھی حزب اللہ کے ڈرونز کو ٹریک کرنے میں مسلسل چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے۔
شمالی محاذ پر اسرائیل کی مشکل
اسی سلسلے میں ممتاز صیہونی قلمکار اور ماہر امیر بوحبوط نے مقبوضہ فلسطین کے شمالی علاقے کی افراتفری کی حالت کے بارے میں کہا کہ اسرائیلی فوج حزب اللہ کو چیلنج کرنے کے بجائے خود ایک چیلنج کا سامنا کر رہی ہے اور شمالی علاقے کی ناقابل برداشت حالت کے لئے حل تلاش کر رہی ہے۔
اسی موضوع پر صیہونی چینل 13 کے فوجی تجزیہ کار آلون بن دیوید نے کہا کہ اسرائیل ایک طویل اور کئی سالہ جنگ کے آغاز میں ہے،انہوں نے صیہونی سیاسی اور فوجی حکام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی کابینہ اس وقت کوشش کر رہی ہے کہ اسرائیل پہلے سے زیادہ تنہا اور کمزور ہو جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہجب اسرائیل کی دو فوجی ڈویژنز غزہ میں الجھی ہوئی ہیں تو حزب اللہ کے خلاف شمالی محاذ کی حالت میں تبدیلی کی کوئی امکان نہیں ہے، اس دوران غزہ میں شدید فوجی کاروائیوں کے خاتمے سے حزب اللہ کے ساتھ جنگ بندی پر بات چیت کا موقع مل سکتا ہے۔
مزید پڑھیں: کیا اسرائیلی فوج حزب اللہ کے ساتھ جنگ کے لیے تیار ہے؟
آلون بن دیوید نے کہا کہ حزب اللہ کے ساتھ کسی بھی معاہدے سے شمالی علاقے کے باشندوں کی سکیورٹی کی ضمانت نہیں مل سکتی، لیکن یہ اسرائیلی فوج کو اگلی جنگ کی تیاری کا موقع دے سکتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی فوج آٹھ ماہ کی شدید جنگ کے بعد شدید تھکی ہوئی اور فرسودہ ہو چکی ہے اور اگلی جنگ میں جانے سے پہلے اسے خود کو مضبوط کرنا ہوگا۔