سچ خبریں:اسرائیل یمنی مسلح افواج کی جانب سے بڑھتے ہوئے میزائل حملوں کے سامنے بے بس نظر آ رہا ہے، ان حملوں نے اسرائیل کی دفاعی حکمت عملی پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں، جہاں یہ خدشہ بڑھ رہا ہے کہ یمن سے لاحق خطرات اسرائیل کے اندرونی معاملات پر گہرا اثر ڈال سکتے ہیں۔
الجزیرہ نیوز چینل کی رپورٹ کے مطابق، یمنی مسلح افواج کے بیلسٹک میزائلوں نے اسرائیل کے کئی اسٹریٹجک انفراسٹرکچر کو نشانہ بنایا ہے، جن میں حالیہ حملہ حیفہ کے قریب واقع اوروت رابین پاور اسٹیشن پر شامل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: یمن کے بیلسٹک میزائل حملے کی انفرادیت؛اسرائیل کے دل پر کاری وار
ماہرین کا ماننا ہے کہ اسرائیل ان حملوں کے حوالے سے نہ صرف غافل ہے بلکہ اس کے پاس فوری دفاعی حکمت عملی بھی موجود نہیں ہے۔
صیہونی تجزیہ کار اوفیر دیان کے مطابق، اسرائیلی انٹیلیجنس انصار اللہ کے ڈھانچے اور ان کی حکمت عملی کے بارے میں محدود معلومات رکھتی ہے، جو ایک سنگین خطرہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی میڈیا یمنی حملوں کی شدت کو کم ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن یہ حکمت عملی عوامی اعتماد کو بحال کرنے میں ناکام رہی ہے۔
اسرائیلی ماہر ایال زیسر کے مطابق، یمن اسرائیل کے لیے محض ایک ثانوی خطرہ نہیں بلکہ ایک مرکزی خطرہ بن چکا ہے، ان کا کہنا ہے کہ یمنی افواج کی بڑھتی ہوئی طاقت اور بین الاقوامی اتحاد کی ناکامی نے اسرائیل کی سلامتی کو مزید خطرے میں ڈال دیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یمنی افواج کی طاقت ایرانی مدد اور فنی مہارت کی وجہ سے بڑھ رہی ہے، انصار اللہ کے بیلسٹک میزائل حملے اسرائیل کی دفاعی صلاحیت کو چیلنج کر رہے ہیں، اور اس کی فوجی کارروائیاں ان حملوں کو روکنے میں ناکام رہی ہیں۔
مزید پڑھیں: یمن کی مزاحمتی کارروائیاں اور صیہونیوں کی بے بسی
رپورٹ میں یہ تجویز دی گئی ہے کہ اسرائیل کو امریکہ کے ساتھ مل کر ان خطرات سے نمٹنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی تیار کرنی چاہیے، خاص طور پر نئی امریکی انتظامیہ کے تحت، جو اسرائیل کو زیادہ اہمیت دیتی نظر آتی ہے۔